تعزیتی اجلاس حضرت مولانا یوسف اصلاحی علیہ الرحمہ
تحریر :نقاش نائطی
۔ +966562677707
حضرت مولانا یوسف اصلاحی تاریخ پیدائش 9 جولائی 1932، جیسی عظیم علمی شخصیت پر، جو ابھی 3 ہفتہ پہلے 21 دسمبر2021 یوپی کے رامپور شہر میں وفات پاتے تک، اپنی زندگی کی 90 بہاریں دیکھنے ہوئے، اپنے توشہ آخرت کے ساتھ بارگاہ ایزدی پہنچ چکے ہیں ۔ انکے انتقال بعد عالم کے کئی حصوں میں، ان دنوں کورونا قہر کہرام کے حالیہ اومیکروں قہر سازی پس منظر میں بھی زوم کانفرنس طرز پورے عالم کے مختلف حصوں کی نمائندگی کرتے مندوبین پر مشتمل زوم ویبینار تعزیتی اجلاس شرکت کی
ہمیں ملی دعوت کو، ہم اپنے لئے باعث صدافتخار ہونے کا ذریعہ مانتے ہیں۔ حضرت مولانا یوسف اصلاحی علیہ الرحمہ سے براہ استفادہ کا ہمیں شرف حاصل نہ رہا، ہاں البتہ انکے تربیت یافتہ پروفیسر رشید کوثر فاروقی اصلاحی مرحوم کے تلمیذ خاص رہتے اور ان ہی کے دروس قرآن میں بارہا حضرت مولانا یوسف اصلاحی کے علم و حلم کے بارے میں تعریف سنتے، ہم پلے بڑھے تھے۔ ہماری ثانوی تعلیم جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے بعد چونکہ ہمارے سر پرستوں نے، ہمیں عصری تعلیم کا دلدادہ بنادیا تھا
اور کلیہ اپنی تعلیم دوران ہی حضرت مولانا یوسف اصلاحی کے شاگرد خاص پروفیسر رشید کوثر فاروقی اصلاحی کے تلامیذ خاص بنے، درس قرآن میں جو کچھ دینی علم حاصل کیا تھا آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ بناہوا ہے۔ ہم مولانا سراج الدین ندوی کے مشکور ہیں جو انہوں نے ایسی عالمی شہرت یافتہ علمی شخصیت کے تعزیتی اجلاس میں شرکت کے بہانے، اس تعزیتی اجلاس کے عالمی و ملکی شہرت یافتہ شرکاء سے بہت کچھ سننے اور سیکھنے کا ہمیں موقع دیا۔ آج کی اس ویڈیو لنک تعزیتی اجلاس میں بھٹکل کی مایہ ناز شخصیت حضرت مولانا الیاس جاکٹی ندوی مدظلہ نے بھی نہ صرف شرکت کی تھی
بلکہ پر مغز کلمات بھی کہے تھے۔ بھٹکل جماعت اسلامی سے تعلق خاص رکھنے والے اور ادارہ تربیت اخوان و شمش اسکول کے تاسیسی ارکان میں سے ایک،مرحوم حسن باپا ایم ٹی علیہ الرحمہ کے فرزند علی اعلی، اورعبدالقادر باشہ رکن الدین نے بھی شرکت کی تھی۔
مرحوم حضرت مولانا یوسف اصلاحی علیہ الرحمہ نے زندگی بھر نساء کی تعلیم و تربیت پر زور دیا تھا۔ کہتے تھے، ایک نساء کی دینی و فکری نہج تربیت پورے خاندان کی تربیت کے بقدر ہوا کرتی ہے اسی لئے جامعہ الصالحات یا جامعات البنات کے قیام کی فکر انہیں رہتی تھی۔ فی زمانہ شخصیت سازی (پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ) کو جو شہرت حاصل ہے، آج سے نصف صد سال قبل کے نوجوانوں میں شخصیت سازی کے وہ بہترین ماہر تھے۔ حالیہ سو سال کی معروف کتب حضرت مولانا اشرف علی تھانوں کی
“بہشتی زیور” اورحضرت مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی “دینیات” کے ہم پلہ انکی تصنیف “آداب زندگی” کو تصور کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں عالم کی کتنی زبانوں میں تراجم ہوتے ہوئےکتنے لاکھ کروڑ مسلمانوں کے دینی نہج ذہن سازی، یہ کتاب کرچکی ہوگی۔ فی زمانہ اسمارٹ فون، ہر دست کی زینت بنتے اور گوگل سرچ انجن تک ہر کسی کی رسائی ہوتے پس منظر میں، وہ 50 سال قبل کا کتب بینی کا شوق آج کی نسل جدید میں نہ رہا اسلئے آج کی نوجوان نسل کے اذہان تک، حضرت مولانا کی تخلیق آداب ذندگی والے افکار پیوست و سرایت کروانے کے لئے، انہیں کتب بینی پر قائل و مائل کرنے یا کروانے کے بجائے،
لحن داؤدی والی بھاری بھرکم آواز میں، آداب زندگی جیسی معرکہ الاراء تصانیف کو، نصف ساعتی صوتی کلپ میں سلسلہ وار منتقل کرتے ہوئے، فی زمانہ نوجوانوں نسل کے پسندیدہ، سائبر میڈیا فیس بک، ٹیوٹر، یوٹیوب، واٹس آپ پر،آف لوڈ کرنے سے، علماء کرام کی عرق ریزی سے نکلے یہ دینی افکار، نوجوان نسل کے اذہان تک ودیعت کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
ثانیا” آج یورپ و امریکہ کے اعلی تعلیم یافتہ مسیحی ہوں کہ دارلکفار و مشرکین ھند کے برادران وطن ہوں، ہم ان میں سے اکثریت کو دین حق کا متلاشی پاتے ہیں۔ حضرت مولانا عبدالکریم پاریکھ علیہ الرحمہ جیسے عالمی سطح کے محقق و مصلح داعی دین اسلام کے تفکرات کی رؤ سے، آسمانی صہوف اولی یا زبرالاولین والی، یہ آسمانی ویدوں والی ھندو قوم،آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہو سکتی ہے
۔ اس ھندو قوم کی اعلی نسل برہمن اولاد کو مذہبی رسومات ادا کرنے لائق بنانے اسکی پوجا پاٹ کر، اسے برہمن پنڈت قرار دیتے، اسے جینیو دھاگا پہناتے وقت جو سنسکرت اشلوک، “یکم دوئم نیہہ ناستے” پڑھایا جاتا ہے وہ دراصل “لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ” والا کلمہ طیبہ ہی تو بزبان سنسکرت ہے۔ آج بھی کسی خاص برہمن پنڈت سے پوچھا جائے کہ یہ منووادی والے منو، آپ کے کون ہیں؟ تو وہ صاف کہتے پائے جاتے ہیں
کہ “منو ہمارے رشی منی یا پرماتما کے دودھ یا آپ کے نبی جیسے تھے۔ اور رشی منی منو کے زمانے میں بہت بڑا پرلئئے یا سیلاب آیا تھا جس میں ساری دنیا ڈوب گئی تھی صرف منو وادی ھندو ہی بچ گئے تھے” اور سب سے اہم بات یہ اصلی منو وادی ھندو کی اکثریت مورتی لکھا نہیں کیا کرتی یے، اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ ہمارے برادران وطن سو کروڑ کے قریب ھندو، حضرت نوح علیہ کی گمشدہ قوم ہیں۔انہیں بھی اپنے رشی منی (حضرت نوح علیہ السلام) کی تلاش ہے ۔ دعوت دین اسلام کو قیامت تک کفار و مشرکین تک پہنچانے کی ذمہ داری تفویض کئے ہوئے، دین کے داعی ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری کیا نہیں بنتی ہے؟
کہ برادران وطن کے پاس موجود انکی آسمانی کہی جانے والی کتب، رگ و اٹھر وید کو ہماری آسمانی کتاب قرآن مجید کی کسوٹی پر گھس گھس پرکھ کر، قرآنی آیات سے مماثلت رکھتے وید اشلوکوں کو، پرت در ہرت کھول کھول کر، برادران وطن کے سامنے رکھتے ہوئے، انکے اپنے منو کی بھولے بسرے ہزاروں سال قبل کے دین آسمانی کو، نبی آخر الزماں خاتم الانبیاء کے جدید ورژن دین آسمانی ہی کے طور پیش کرتے ہوئے
، برداران وطن تک دعوت دین اسلام کو پہنچانے کا حق ادا کیا جائے؟ چونکہ حضرت مولانا یوسف اصلاحی کا تعلق رام پور سے ہے اور رام پور ہی کے متوفی مولانا شمش نوید عثمانی کی معرکہ الاراء کتاب “آگر اب بھی نہ جاگے تو” برادران وطن تک دین اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے مشعل راہ کے طور لکھی گئی ہے۔ہمارے علماء کرام، سنسکرت پر عبور حاصل کرتے ہوئے، برادران وطن کے دینی آسمانی کتب پر تحقیق کر، اسے قرآن کریم سے پرکھ پرکھ کروڑوں برادران وطن تک، دین اسلام کی دعوت دینا وقت کی اہم ضرورت کیا نہیں ہے؟
اسی لئے آج کی عالم کے مختلف ملکوں حصوں سے 350 مندوبین کی شرکت والی اس ویڈیو کانفرنسنگ تعزیتی اجلاس میں، شریک علماء کرام و محققین عظام تک اس نکتہ کو پہنچانے کی جرات ہم نے کی ہے۔ ہمیں امید ہے اس سمت پیش رفت، سو کروڑ برادران وطن تک دین اسلام کی دعوت موثر انداز پہنچانے میں آسانی ہوگی
حضرت مولانا یوسف اصلاحی کے چھ سات دہوں کے دعوتی مشن کو، کسی نہ کسی طریقے سے، اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک جاری و ساری رکھنا ہے۔ حضرت مولانا یوسف اصلاحی کی مغفرت کلیہ و جنت کے اعلی مقام کو ان کے لئے محجوز رکھے جانے کی دعا مانگتے ہوئے، بارگاہ ایزدی سے یہ تمنا بھی رکھتے ہیں کہ پاک پروردگار اپنی کم مایگی کے باوجود، ہمیں بھی زندگی کے آخری لمحات تک دعوت دین کی ترویج کرتے ہوئے، خاتمہ بالخیر ہوتے، اپنے رب کائینات کی طرف لوٹنے والوں میں سے بنائے۔وما علینا الا البلاغ