اہل مغرب کا دہرا معیار! 191

صدارتی نظام سے تبدیلی نہیں آئے گی!

صدارتی نظام سے تبدیلی نہیں آئے گی!

تحریر :شاہد ندیم احمد

ملک بھر میں ایک بار پھر صدرارتی نظام کی بحث شروع ہو گئی ہے ،یہ ہر دو چار سال بعد اس وقت صدرارتی نظام کی بحث شروع کروائی جاتی ہے کہ جب حکمرانوں کو پارلیمانی نظام میں اپنی حکمرانی بے لطف محسوس ہونے لگتی ہے اور انہیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ اس نظام میں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں،وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کر نہیں پارہے ہیں ،حالا نکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک ایسے صدارتی نظام کی وکالات میں زمین آسمان ملارہے ہیں کہ جو اس ملک میں کئی مر تبہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ اس وقت صدارتی نظام کی بحث کیوں کی جارہی ہے ،کیا موجودہ پارلیمانی نظام واقعی ناکام ہو گیا ہے اور کیا پا کستان میں صدارتی نظام کا میاب ہو جائے گا ،کیا صدارتی نظام پہلے نہیں آزمایا گیاہے ؟پاکستان میں صدارتی نظام چار بار آزمایا جاچکا ہے اور ایک بار پھر آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے ،دنیا میں کوئی نظام برا نہیں ،اس کو چلانے والے اچھے برے ہوتے ہیں جو اسے کا میاب اورنا کام دیتے ہیں ،دنیا میں طویل عرصے تک بادشاہت بھی رہی ہے ،لیکن جن باد شاہوں نے اہپنے ملک میں عدل وانصاف قائم کیااور اپنی رعا یا کو امن و سکون کے ساتھ بنیادی ضروریات فراہم کی ہیں ،اُن کے نام آج بھی تاریخ میں سنہری حرف میں جگمگا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا نے ار تقائی منازل طے کر کے ہی جمہوری نظام کو اپنایا اور عوام کو اپنے نمائندے منتخب کر نے کا حق دیا ہے ،ہر دور میں عوام نے اپنی دانست میں اچھے نمائندوں کاہی انتخاب کیا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ وہی لوگ بعدازاں برے نااہل ثابت ہوئے ہیں،اس میں نظام یا عوام کا کوئی قصور نہیں ، بلکہ منتخب نمائندوں کا قصور ہے کہ عوام کی امیدوں پر پورا تر نے میں ناکام رہے ہیں،اس پارلیمانی تجربے سے پوری دنیا گزررہی ہے ،پا کستا بھی اسی کاحصہ ہے ،اس لیے کہنا درست نہیں ہے

کہ جمہوری پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا تو صدارتی نظام نا گزیر ہے ،پا کستان میںصدارتی نظاموں کی لائی گئی بر بادی کے باوجود قصیدہ گوئی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔تحریک انصاف حکومت کے نمائندوں کے بیانات سے نظام بدلنے کے اشارے مل رہے ہیں ،جبکہ اپوزیشن خود کو بچانے اور اقتدار کے حصول میں مقتدر قوتوں کی خو شنودی میں لگی ہے

،اس حکومت کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں ایک ایسی اپوزیشن ملی ہے کہ جو ہر لحاظ سے منقسم کے ساتھ منتشر بھی ہے ،اپوزیشن قیادت کو نظام کی تبدیلی سے نہیں ،اپنے مفادات کے حصول سے غرض ہے ،وہ اقتدار حاصل کر نے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ،اس بارقائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین موقع ملاتھا ،مگر دونوں ہی مصلحتوں کے اسیر رہے ہیں

،اس لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی جذبات کی حقیقی ترجمانی کرنے میں ناکام ر ہی ہے ۔اپوزیشن پہلے حکومت کا کچھ بگاڑ سکی نہ آئندہ کچھ کر پائے گی ، اپوزیشن کا احتجاج و ریلی محض کار کنان کو متحرک کرنے کا بہانہ ہے ، اپوزیشن اپنا حقیقی کر دار ادا کرنے کی بجائے حصول اقتدار کے اشاروں میں الجھی ہو ئی ہے ،اگر اپوزیشن مضبوط و متحد ہوتی

تو کوئی پارلیمانی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،مگر اس کمزور اپوزیشن کی وجہ سے ہی پا رلیمانی نطام کو ناکام ثابت کر کے صدارتی نظام آزمانے کی باتیں ہو رہی ہیں ،یہ ملک کسی کے خواہشات کی تجربہ گاہ نہیں ،بلکہ بائیس کڑوڑ عوام کی امیدوں کا مرکز ہے ،اس ملک کو کسی بھی فرد واحد کی خواہشات کی تکمیل کیلئے تختئہ مشق بنانا چاہئے نہ آزمائے ہوئے کو دوبارہ بر سر اقتدار لانا چاہئے،کیو نکہ عوام آزمائے ہوئے کو کسی صورت دوبارہ آزمانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
یہ اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ یہاں جو لوگ بھی بر سر اقتدار آئے ،ان میں بیشتر اپنے مفادات کے ہی اسیرنکلے ہیں،انہوں نے ملک وقوم کا فائدہ دیکھنے کی بجائے اپنا نے ذاتی مفادات کو دیکھااور ملک کو مستحکم کر نے کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے میں لگے رہے ہیں،یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا اور یہی کچھ اب بھی ہو رہا ہے ،

یہ صورت حال تب تک نہیں بدلے گی کہ جب تک عوام دیانت دار مخلص ،اہلیت کے حامل لوگوں کا انتخاب نہیں کریں گے ،پا لیمانی نظام حکومت بدلنے سے کو ئی بڑی تبدیلی آئے گی نہ صدارتی نظام سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا ، ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے نظام بدلنے کی نہیں ، اچھے باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے ،تبھی ملک وعوام کی زندگی میں خوشحالی کی تبدیلی آئی جاسکے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں