شفافیت کے اشاریے باعث تشویش!
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
دنیا میںٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بدعنوانی پر نظر رکھنے والا ایک معتبر بین الا قوامی ادرہ تصور کیا جاتا ہے ،اس ادرے نے ایک سو اسی ممالک کا کرپشن پر سیشن انڈکس جاری کیا ہے ،اس میں بتایا گیا ہے کہ پا کستان میں کرپشن اپنے عروج پر ہے اور پا کستان کرپشن میں ایک سو چالیس ویں نمبر پر پہنچ چکاہے ،ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹ کسی سیاسی جماعت کی نہیں ،بلکہ ایک ایسے ادارے کی رپورٹ ہے کہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،اس ادارے کی کرپشن سروے رپورٹ میں پاکستان کی تنزلی حکومت اور اس کے تمام متعلقہ اداروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے بنیادی ایجنڈے میں بدعنوانی کا خاتمہ سر فہرست تھا ،تاہم عالمی سطح پر مانے ہوئے شفافیت کے اشارے جوکچھ دکھارہے ہیں ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے کے مرکزی خیال کو عملی صورت دینے میں ناکام رہی ہے ،اس کی تصدیق ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے بھی کردی ہے ،مگر حکومت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ ملک بدعنوانی میں گزشتہ کئی سال کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے،اس سروے رپورٹ کے بعد بھی حکمرانوں کے بیان حسب روایت دفاعی اور جواز پر مبنی ہیں ،وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تو یہاں تک ککہ دیا ہے کہ یہ فنانشل کرپشن نہیں ،بلکہ قانونی وسیاسی کرپشن کی وجہ سے گراوٹ ہوئی ہے۔
اگر دیکھا جائے توتحریک انصاف حکومت نے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے جو وعدے کئے تھے ،قانون کی حکمرانی ان اقدامات کا لازمی حصہ تھی ،مگر شفافیت کے اشارے واضح کررہے ہیں کہ حکومت اپنا مینڈیٹ پورا نہیں کرسکی ،اس کے باعث گزشتہ تین برسوں میں کرپشن کی عالمی فہرست میں پا کستان کی سولہ درجے تنزلی ہوئی ہے ،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پا کستان میں کرپشن تیزی سے فروغ پارہی ہے
اور پا کستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا ہے ، مگر حکمران اقتدار کے چوتھے برس بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں،اگرکوتاہی یاناکامیوں کا احساس ہو جائے تواصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے ،مگر کوئی اپنی غلطی تسلیم ہی نہ کرے اور حیلے بہانے سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی رہے تو پھر اصلاح کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
عمرا ن خان اقتدار میں آنے سے قبل تقریروں میں دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ملک میں بے انتہاکرپش ہورہی ہے ،وہ برسراقتدار آکر ملک سے نوے دن میں کرپش کا خاتمہ کردیں گے ،مگر لگتا ہے کہ وزیراعظم کا کرپش کے خاتمے کانعرامحض سیاسی نعرہ تھا ،اس کو تقویت پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور سپریم کورٹ کے سابق ریٹائر جسٹس وجیہہ الدین احمد کے ہوشربا انکشافات سے بھی ملتی ہے کہ پی ٹی آئی پر اشرافیہ کا قبضہ ہو چکا ہے ،
اس مٹھی بھر اشرافیہ نے ہی ملک کے وسائل پر بھی قبضہ کر رکھا ہے ،اس کے باعث ان کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جبکہ ملک کی نصف آبادی غربت اور افلاس کی لکیر سے نیچے ز ندگی گزار ے پر مجبور ہے،یہ بات بھی عمران خان ہی کہا کرتے تھے کہ ملک میں کرپشن ہورہی ہو تو اِس کا ذمہ دار حکمرا ہوتا ہے ،
اگروزیراعظم کی بات درست تسلیم کرلی جائے توپھر ٹرا نسپیر نسی انٹرنیشنل نے حکومت کی کرپشن مخالف مہم کی قلعی کھول دی ہے ۔ملک میں ایک طرف غربت ،بیروز گاری اور بڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں تو دوسری جانب حکومت مانے یا نہ مانے کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے ،اس صورت حا ل میں وزیر اعظم کی جانب سے کرپشن کے خاتمے اور ریاست مدینہ طرز کی ریاست کی تشکیل کے دعوئے محض سیاسی بیانات تو ہو سکتے ہیں ،مگر اس میں حقیقت کہیں نظر نہیں آتی ہے
،حکومت نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں کریشن کے خاتمے کیلئے کچھ ادھورے مقدمات اور چند درجن افسروں کے تبادلوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پائی ہے ،حکومت نے کسی بدعنوان کو کیفر کردار تک پہنچایا نہ قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں سے دولت واپس لی جاسکی ہے ،ریاست کاکام کسی خائن کے ساتھ معاملات طے کرنا نہیں ،بلکہ جرائم کا راستہ روکنا اور مجرموں کو نشان عبرت بنا نا ہے ،لیکن یہاں پر کرپشن کرنے والوں کو ڈیل اور ڈھیل کے ذریعے بھاگنے کا راستہ فراہم کردیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں وقت آگیا ہے کہ وزیر اعظم کچھ بنیادی فیصلے کریں ،کیونکہ اب مخصوص مافیاز اور میڈیا کی مخالفانہ مہم جوئی کی باتیں کرکے بات نہیں بنے گی ،انہیںپنی ٹیم سے نااہل اور نالائقوں کو فارغ کرنا ہو گا،ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل رپورٹ کے مندرجات اور معروضی حالات کا جائزہ لے کر اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لا نا ہو گی ،
اس ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں بقائے باہمی کے ساتھ قانون سازی کرنا ہے کہ جس سے احتساب اور قانون کی حکمرانی کو فروغ حاصل ہو سکے ،اس صورت میں ہی پی ٹی آئی حکومت کو دوام حاصل ہو سکتا ہے ،بصورت دیگر جیسا کہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سیاسی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو جائے گی۔