156

‘ جائزے

” جائزے  ”

ڈاکٹر فرحت عباس

ڈاکٹر فرحت عباس ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ وہ ایک ممتاز شاعر ، ادیب و نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین معالج بھی ہیں پُرخلوص اور ملنسار شخصیت کے حامل ہیں۔ دھیمہ لہجہ ، شیریں گفتار کہ جو ایک بار مل لے دوبارہ ملاقات کا تمنائی ہو ۔ یہی تاثیر و چاشنی ان کی تخلیقات میں بھی ملتی ہے ان کی اب تک تقریباً ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ کتب منصۂ شہود پر نمودار ھو کر اپنی ست رنگی کرنوں سے دبستانِ علم وادب کو منور کر چکی ہیں ان کی اب تک شائع ہونے والی کچھ کتب درج ذیل ہیں
بھیگی پلکیں ، زلفِ دراز ، استعارہ ، معنی کی محبت میں ، فردیاتِ فرحت ، یہ عشق ، فصلِ نجوم ، خامہ فرسائی ، سفیرِ نقد و نظر ، خامہ فرسائی ، صریرِ نو ، مضامینِ فرحت ان ادبی کتب کے علاوہ انہوں نے کچھ پیشہ وارانہ کتب بھی تحریر کی ہیں اور اب حال ہی میں ان کی کتاب ” جائزے ” منظرِ عام پر آئی ہے

جو کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے جس کا دیباچہ معروف شاعر ، ادیب ، محقق و ماہر تعلیم جناب پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی نے تحریر کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ” آج کل تنقید کی بےشمار اقسام سامنے آ رہی ہیں جو حالی اور شبلی کی عملی تنقید سے برآمد ہوئی ہیں۔ تاہم ان اقسام میں تھوڑا تھوڑا منافقت کا تڑکا ضرور لگایا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید کی یہ اقسام دوستوں کی تعریف اور دشمنوں کی تنقیص کے لیے بنائی گئی ہیں مگر فرحت عباس کو اقسامِ تنقید سے کوئی غرض نہیں

۔ انھوں نے کسی بھی تحریر کو غور سے پڑھنا ہے کیونکہ یہی اس تحریر کا حق ہے اور پھر اس تحریر کے بارے میں جو کچھ محسوس کرتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور یوں اس تحریر کا مکمل حق ادا کر دیتے ہیں۔ میرا خیال یہی ہے کہ کوئی بھی اچھی تحریر اپنے پڑھنے والے سے یہی کچھ طلب کرتی ہے ۔ اور وہ اپنے پڑھنے والے سے اخلاص چاہتی ہے اور یہ اخلاص اسے ڈاکٹر فرحت عباس سے حاصل ہوتا ہے اسے آپ تنقید کہیں یا کچھ اور ۔ وہ خود بھی اسے تنقید کا نام نہیں دیتے ۔ محض اپنے تاثرات کا نام دیتے ہیں۔”
اسی کتاب میں ڈاکٹر فرحت عباس فرماتے ہیں کہ ‘اس کتاب میں شامل تخلیقی کتب پر میری رائے یا میرا تبصرہ میری انفرادی یادداشت کی تشریح بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر اسے اجتماعی تناظر میں دیکھا اور پرکھا جائے تو موافقت اور وجود کے لیے میری جدوجہد اپنے نقوش زمانی دبستانوں کے دماغ میں فکر کی بعض ناگزیر اشکال میں کوئی نہ کوئی پیکر تراشنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی ۔ قرینہ ، یہی سلیقہ میرا اظہارِ ادب ہے اور یہی میری جستجو بھی ۔ ”

”جائزے ” میں ڈاکٹر فرحب عباس نے جن تیرہ تخلیق کاروں کی تخلیقات کا جائزہ قلم بند کیا ہے اُن میں ” بارش میں بھیگتے زرد پتے / پروفیسر محمد امین ،، درختوں میں کھڑی شام / خاقان خاور ” فکرِ فیض / نثار ترابی ” تری یاد کا سمندر / نسیم شاہد ” فرمائش / اعجاز الحق ” خواب سونے نہیں دیتے / شاہدہ لطیف ” حسنِ تغزل/ حسام حر ” مزاح پارے / ڈاکٹر آصف ریاض ” پت جھڑ کی شام / ڈاکٹر زبیر فاروق ” بساطِ زیست / ارشد محمود ارشد ” تمہارے ہوگئے ہیں ہم / شہباز نیٔر ” حق کا سفر / این اے گردیزی ” زینب دیکھ رہی ہے / آصف نذیر ” شامل ہیں
اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ ڈاکٹر فرحت عباس نے کسی بھی تخلیق کا سرسری جائزہ نہیں لیا بلکہ اُس تخلیق کی گہرائی میں اُتر کر اُس سے چھپے گوہر تلاشنے کی سہی کی ہے اور مکمل غیر جانب داری سے اُس پر اظہاریہ تحریر کیا ہے کہ فقط قاری اظہاریہ پڑھ کر ہی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس ادب پارے میں کتنی رمق ہے ۔ ڈاکٹر فرحت عباس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اُن کا اندازِ تحریر عام فہم و سادہ ہے جس سے قاری کو اُن کا مدّعا سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اور وہ ڈاکٹر فرحت عباس کے اظہاریے کی بدولت ہی اصل تخلیق کی چاشنی سے لطف اندوز ھو سکتا ہے ۔

میں ڈاکٹر فرحت عباس کو ” جائزے ” کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اُن کا قلم اسی روانی سے تخلیق کے ساتھ ساتھ دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات کے جائزے لیتا رہے ۔
دعا گو :
ارشد محمود ارشد
سرگودھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں