اہل مغرب کا دہرا معیار! 146

اگرمجھے نکالا کی صدائیں!

اگرمجھے نکالا کی صدائیں!

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

اس وقت ملک سخت سیاسی دھند کی لپیٹ میں ہے اور اگلے چند ہفتوں کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے،اس کے بارے میں کچھ بتایا نہیں جاسکتاہے ،ایک طرف اپوزیشن ایک بار پھر حکومت گرانے پر متحرک دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب وزیر اعظم کے بیانات خدشات میں اضافے کا باعث بننے لگے ہیں ، بقول وزیراعظم کے’’اگر میں حکومت سے نکل گیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘ اس بیان میں وزیر اعظم کا مخاطب کون تھا،

اس پر بحث جاری ہے ،لیکن وزیراعظم کا غصہ، ناراضی اور تیور بتا رہے تھے کہ ان کا اشارہ عدلیہ، اپوزیشن، ادارے، میڈیا سبھی کی طرف تھا اور ان میں شامل ایسے افراد اور شخصیات بھی زد میں تھے کہ جنہیں اپنے حکومتی اور سیاسی عزائم میں مزاحمت اور مداخلت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف نے حزب اختلاف میں سیاسی ارتعاش برپا کیے رکھی اور اقتدار میں آ جانے کے چار سال بعد بھی وہی کیفیت طاری رکھی ہوئی ہے ،ایک طرف وزیر اعظم ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب بے بس عوام کی مسیحائی کرنے کی بجائے سڑک پر آ کر مزید خطرناک ثابت ہونے کی نوید سنارہے ہیں، اس پرسوال بنتا ہے کہ اگرملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا

، وہاں معاشی استحکام کیسے آ سکتا ہے؟ اس ملک میںایک آتا ہے تو دوسرا نکالا جاتا ہے، پھر دوسرا آتا ہے تو تیسرنکالا جاتا ہے ،ایک بعد ایک کاتماشالگاہے اور باری باری ہر گروہ کا کتھارسس ہورہاہے، اس آنے جانے کے کھیل نے ملکی معیشت کو برباد اور عوام کو بدحال کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اپنے چار سالہ دور اقتدارمیں اچھی کار کردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے ،اس لیے ایک مر تبہ پھر ڈیل اور ڈھیل کی باتیںسر اُٹھا نے لگی ہیں ،سیاست میں پیش گوئیاں کرنے والے تویہاںتک کہہ رہے ہیں

کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ما بین معاملہ صرف اس بات پر اٹکا ہوا ہے کہ انتخابات فوری ہو نے چاہئے کہ آئندہ سال تک انتظار کر لیا جائے ،اس بات کا جس دن فیصلہ ہو گیا ،اُس دن تبدیلی کا عمل بھی تیز تر ہو جائے گا ،اس عمل کے بظاہر آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں،حکومتی صفوں کے اپنے ہی اندر سے اُ ٹھنے والی آوازیں بدلتے حالات کا پتا دے رہی ہیں ۔حکومتی وزرا کل تک بڑی پر اعتماد ی سے آئندہ پانچ سال بھی اقتدار میں رہنے کی باتیں کرتے تھے ،مگر اب ایک نئی گردان ،اگر مجھے نکلا تو خطرناک ثابت ہوں گا ،شروع کر دی گئی ہے ،اگر لانے والے نکالنا چا ہتے

ہیںتو کوئی روک نہیں سکے گا ،ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے نہ جانے کیوں اپنی آنکھیں کبوتر کی طرح بند کر لیتے ہیں ،اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں کہ مجھے کیوں نکلا ؟ اُن کا کچھ بن پایا تھا نہ اب کچھ بن پائے گا،مجھے کیوں نکالا کے نعرے لگانے والے تھک ہار کر ڈیل کا سہارا دھونڈنے لگے ہیں اور اگر نکلا والوں کو بھی ایک دن ایسی ہی ڈیل کا سہارا لینا پڑے گا،اگر موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا ڈول ڈالا جارہا ہے تو ایسا کر نے والے بخونی جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے

،بالکل اُسی طرح جیسا کہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔تحریک انصاف حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کام آسان نظر آتا ہے ،کیو نکہ یہ پہلے ہی اتحادیوں کے سہارے چل رہی ہے ،حکومتی اتحادیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک ہلکے سے اشارے یا ہوائوں کا رخ دیکھ اپی منزل بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے ہیں ،یہ کبھی ہوائوں کے رخ کے مخالف سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ،لہذا ایسے لوگوں کی ایک فہرست ضرور تیار کر لینی چاہئے

کہ جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں،اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم اپنے نظریاتی کارکنوں کی بڑی تعداد کو پہلے ہی ناراض کر چکے ہیں ،اس کے باوجود چند مفاد پرستوں پر انحصار کرتے ہوئے نکالے جانے پر خطرناک ثابت ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے،اسے سادگی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت اور مقتدر قوتیںبظاہر جتنا مرضی ڈیل کی باتوں سے انکار کرتے رہیں ،مگر پس پردہ سارے معاملات طے پا رہے ہیں، ،ورنہ کسی کو بھی کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اگر مجھے نکالا گیا تو مزید خطرناک ثابت ہوں گا،وزیر اعظم ویسے کافی سمجھدار اور جہاندیدہ بھی ہیں،وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی سیاسی تاریخ مجھے کیوں نکالا اور اگر مجھے نکالا جیسی صدائوں سے بھر پڑی ہے ،لیکن ان کا جواب کبھی سامنے آیا نہ آئندہ کبھی سامنے آسکے گا ، بس عوام کے سامنے محض اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے دعوئوں اور نعروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں