نئے چیف جسٹس اور عوامی توقعات ! 160

نئے چیف جسٹس اور عوامی توقعات !

نئے چیف جسٹس اور عوامی توقعات !

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف سے

پاکستان میں اس وقت اکثر فیصلے ماوارا آئین عدالتوں کے باہر بااثر افراد طاقت کے بل بوتے پر اپنی مرضی سے اس لئے کرتے ہیں کہ فیصلہ لینے والے عدالتوں میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔یعنی عوام کا انصاف غیر ریاستی اداروں سے ہے ۔ کیونکہ وہ جس طرح کا فیصلہ ہو فوری طورپر دیتا ہے ۔ جبکہ ہماری عدالتوں کا یہ رکارڈ موجود ہے کہ بعد از مرگ بھی بہت سارے فیصلے سامنے آئے ہیں ۔

ان حقائق کی حقیقت اپنی جگہ اس وقت ہماری عدلیہ کے بارے میں عالمی سطح پر جو رینکنگ سامنے آئی ہے ۔ وہ پریشان کن ہے ۔تاہم اس ملک کے باسیوں کی ہر نئے چیف جسٹس سے یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ فوری انصاف کے لئے تمام تر اقدامات کرینگے ۔ مگر جب فیصلے واٹس آپ یا پھر چیف صاحبان ڈیم بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں تو عوامی توقعات دم توڑ دیتی ہیں ۔ باوجوں اس کے پھر بھی ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ نئے چیف سب سے پہلے عدلیہ کی ساکھ ملکی و عالمی سطح پر تاریخ ساز فیصلوں کی بدولت بحال کریں ، اس وقت ملکی عدلیہ کو جو چیلنج درپیش ہیں ان سے ہر ذی شعور پاکستانی آگاہ ہے۔

ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہماری عدالتوں نے ہمیشہ آئین شکن افراد کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کی توقعات سے بھی بڑھ کر انہیں عطا کیا۔ نظریہ ضرورت سے لے کر مختلف مارشل لاز کو سند جواز بخشنے ملکی کے منتخب وزیراعطم کو تختہ دار پر لٹکانے ، نااہل اور جلاوطن کرنے ، ملعونہ کو بری کر کے بیرون ملک بھجوانے ، مسجد کو فوری گرانے یا پھر بلند و بالا عمارتوں کو فوری طورپر مسمار کرنے ،

روزانہ کی سماعت پر کوئی صادق و امین ہو کر تو کوئی بے ایمان چور ثابت ہوکر نکلتا ہے۔ جبکہ غریب آدمی کو انصاف برسوں بعد تب ملتا ہے جب اس کو قبر میں اترے کئی سال گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود عوام پر امید رہتے ہیں ، جب کوئی بھی نیا چیف جسٹس آف پاکستان بنتا ہے تو عوام عسرت بھری نگاہوں سے منتظر ہو جاتے ہیں کہ اب کچھ نہ کچھ ضرورہوگا ۔ اب جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ سے عوام کوروایتی فیصلوں کی بجائے غیر روایتی فیصلوں کی توقع ہے۔

کیونکہ پاکستان کو اس قسم کے فیصلوں کی ہر سطح پر اشد ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر ریاست کی بقا و سلامتی عدلیہ کے آزاد فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ۔ کہ عدالتیں کسی کو خوش کرنے یا کسی کے دباو میں آ کر فیصلے نہ کرے۔جبکہ ہمارا ماضی اس سلسلے میں اچھا نہیں ہے، جس کی مثال یہ کہ حالیہ چند برسوں میں آنے والے فیصلے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک کو طاقت ور ہونے کی بجائے کمزور ہوا ۔ اور عوام کا انصاف فراہم کرنے والوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ عدالتیں ماضی کے مقابلے میں ایسے فیصلے کرے

جس سے بغیر کسی ابہام کے ہر فرد یہ محسوس کرے کہ یہ فیصلہ درست ہے ۔ ہر کئئی جانتا ہے کہ جس ملک میں انصاف فوری فراہم ہوتا ہے وہ ملک ترقی کرتا ہے ۔ جبکہ ہمارے ملک کی بدحالی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے وابستہ جانتے ہیں کہ انصاف کے بغیر ریاست کو مضبوط اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اور نہ ہی فیڈریشن کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت ملک میں جو صورتحال بنی ہوئی نے ہر شخص کی زندگی مشکل ترہے ۔

کا الزام ملکی عدلیہ کا عائد کیا جارہے ہے ۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک انارکی کا شکار ہو چکاہے ۔ ایسے میں کسی نامعلوم انقلاب سے بچنے کیلئے عوام کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے عدلیہ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ جیسے ہر صورت پوری کرنا ہوگی ۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو ان کا نعرہ احتساب کا رہا ہے ۔ جبکہ اب تک انہوں نے عدلیہ کے مکمل خودمختاری کے لئے ان کو ضرورت کے مطابق افرادی قوت اور وسائل مہیا نہیں کئے ہیں

جس کی وجہ سے مقدمات میں فوری فیصلے نہیں آرہے ہیں ،بلکہ محض مقدمات کونمٹا ئے جارہے ہیں۔ جس ی زندہ مثال مقدمات بعد از مرگ آنے والے فیصلے ہیں ۔ یعنی اس وقت اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہماری عدالتوں کے پاس لامحدود اختیار ات نہیں ہیں ، انہیں اختیارات منتقل کرنے کے لئے قانون سازی کر تے ہوئے وسائل فراہم کرنے ہونگے ۔ قانون سازی معروضی حالات اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہونے چاہیے

تاکہ ریاست کے ہر شہری کو مکمل اور فوری انصاف مہیا ہو۔ مگر ہوتا نظر نہیں کیونکہ اس وقت ہمارے قانون ساز ادارے س کا اندازہ میں قانون سازی کر رہے ہیں کا انداز اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قانون ساز اداروں میں ہونے والے معاملات کیلئے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے عدلیہ بھی خاموش ہو جاتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں