122

سرحد پار سے دہشت گردی کے سائے!

سرحد پار سے دہشت گردی کے سائے!

تحریر :شاہد ندیم احمد

پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ انتہائی تشویشناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے،ایک بار پھر ایسا لگنے لگا ہے کہ اس دور میں دوبارآگئے ہیں کہ جہاں پا کستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ،پا کستان نے بہت قر بانیاں دیے کر دہشت گردی کے ناسور کو شکست دی تھی

، لیکن ایک عرصہ بعد دوبارہ دہشت گردی کے سائے منڈلانے لگے ہیں، افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی مسلسل کاروائیا ںافغان طالبان حکومت کے ان دعوئوں کی نفی کررہی ہیں کہ جس میں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ افغان سر زمین پا کستان کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دی جائے گی ،

مگرپا کستان مخالف قوتیں افغان سر زمین مسلسل پا کستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میںپاکستان واحد ملک ہے کہ جس نے افغانستان میں امن بحالی کیلئے اپنا انتہائی اہم کردار ادا کیاہے ،پا کستا ن نے طالبان اور امریکہ کے مابین کشیدگی کے خاتمہ میں نہ صرف ثالثی کا کردار ادا کیا ،بلکہ دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر بھی لا بٹھایا ،اس کے نتیجے میں ہی افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آئے ہیں، طالبان حکومت آنے کے بعد قوی امید کی جارہی تھی

کہ افغانستان کی جانب سے اب پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئیں گے، لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی کا رکنا تو در کنار،اُلٹا دہشت گردانہ کاروائیوں میں مزید اضافہ دکھا جارہا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام پر ایک عمومی رائے تھی کہ اب پاکستان زیادہ بہتر انداز میں دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گا، افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں کو پناہ دے گی نہ اپنی سر زمین پا کستان کے خلاف استعمال ہونے دی جائے گی

،اس طرح بھارت اپنے مذموم مقاصد پورے نہیں کر سکے گا تو خطے میں دہشت گری کے خاتمے کے ساتھ امن کا قیام ہو گا ، لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے،افغان طابان حکومت میںتحریک طالبان پاکستان افغانستان میں نہ صرف متحرک ہوئے ہیں ،بلکہ پا کستان کے مختلف علاقوں میں مسلسل دہشت گردانہ کا روائیاں بھی کرر ہے ہیں۔افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کی کار وائیاں روکنے کی بجائے

پاکستان کو ان کے ساتھ مزاکرات کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں ،یہ مذاکرات کی بیل بھی منڈھر نہ چڑسکی اور مذاکرات ناکام ہو گئے، لیکن افغان طالبان نے تحریک طالبان پا کستان کے دہشت گروں کو اپنے ملک سے باہرنکالانہ انہیں سختی سے روکنے کی کوشش کی ہے ،تحریک طالبان پا کستا ن کے لوگ آج بھی افغان سرزمین پر نہ صرف موجود ہیں ،بلکہ پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں

،اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور حکومت میں بھی دہشت گرد تنظیموںکو افغانستان میں ایسی کھلی چھٹی نہیں تھی کہ جیسی طالبان دور میں نظر آرہی ہے۔افغان طالبان حکومت سے قبل سرحدی تنازعات بھی اتنے نہیں تھے ،بلکہ سر حدی باڑ نہایت پُر امن ماحول میں لگائی جارہی تھی ،اس پر بھی اب اعتراضات کیے جارہے ہیں ،طلبان دور حکومت میں جو ماحول بن گیا ہے،ایساپہلے نہیں تھا، ایک طرف ہم ایک دوسرے کودوست کہتے ہیں ،

جبکہ دوسری جانب ایسا ماحول بنا ہواہے کہ جس میںدہشت گردی کی کارروائی کے د وران دہشت گرد اپنے لوگوں سے افغانستان میں باقاعدہ رابطہ میں رہتے ہیں،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں اب بھی بیس کیمپ موجود ہیں ،سوال یہ ہے کہ اگر طالبان ہمارے دوست ہیں تووہاں یہ بیس کیمپ اور پا کستان مخالف اتحاد کیسے بن رہے ہیں، اگر بھارت آج بھی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے

تو پھرطالبان حکومت کیا کررہی ہے؟
طالبان حکومت کو اپنے رویئے پر نہ صرف نظر ثانی کرنا ہو گی ، بلکہ افغان سر زمین پا کستان کے خلاف استعمال کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی بھی کرنا ہو گی ،طا لبان حکومت میں پاکستان کیخلاف افغان سرزمین کا استعمال افسوسناک ہی نہیں، علاقے کے امن و سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے۔ کرم ایجنسی میں ہونیوالی دہشت گردی میں بھارتی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،بھارت افغان سرزمین کو

پہلے بھی پاکستان کیخلاف استعمال کررہا تھا اور آئندہ بھی کرسکتا ہے ،اس لیے افغان سر حدپار سے ہونیوالی دہشت گردی کیخلاف پاکستان کو صرف رسمی احتجاج پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھی اٹھانے کی ضرورت ہے،پا کستان بھارتی دہشت گردی کے ثبوت بین الاقوامی فورمز پر پیش کرکے اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں