206

سیکولر آئین کی روشنی میں، شخصی مذہبی عمل آوری کی حدود متعین کئے جانا ضروری

سیکولر آئین کی روشنی میں، شخصی مذہبی عمل آوری کی حدود متعین کئے جانا ضروری

نقاش نائطی
۔ +966562677707

“ہماری تہذیب ہمیں رواداری کا درس دیتی ہے، ہمارا فلسفہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق سکھاتا ہے اور ہمارا آئین رواداری پر عمل کرتا ہے، ہمیں اسے کمزور نہیں کرنا چاہئے…”
11 اگست 1986 کو جسٹس “چِنَّپَّا ریڈی” کا کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دیا گیا تاریخ ساز فیصلہ سنایا
کیرالہ کی تین عیسائی لڑکیوں کے، اپنے مذھبی عقیدے کے خلاف ، قومی ترانہ نہ پڑھنے پر، کیرالہ اسمبلی کی سفارش کے تحت، ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول کی طرف سے، انہیں اسکول سے برطرف کئے گئے فیصلے کے خلاف، اور کیرالہ ہائی کورٹ میں داخل کی گئی رٹ پٹیشن پر، جہاں پہلے ایک رکنی بنچ کےاور بعد ازاں وسیع تر بنچ (ڈیوزن بنچ) کے،

انکی رٹ پٹیشن خارج کرتے فیصلے کے تناظر میں، قومی ترانہ دانستا” نہ پڑھنے، یاقومی ترانہ پڑھنے کی یقین دہانی سے بھی انکار کے باوجود، 1986 سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ، کیا ہر بھارتی کے، مذہبی عمل آواری شخصی آزادی طہ کرنے لائق فیصلہ کیا نہیں ہے؟آج 2022 کی شروعات ہی میں یوپی انتخابی ہار نظر آتے

پس منظر میں، اپنے سنگھی حکومتی راج کرناٹک میں، مسلم طالبات کو حجاب کے بہانے اعلی عصری تعلیم سے دانستہ روکتے ہوئے، مسلم مخالف نفرت آمیز ماحول پیدا کرنا، بھارت پر حکومت کررہی آرایس ایس ،بی جے پی سنگھی حکومت کی نیچ ذہنی کا ثبوت کیا نہیں ہے؟ اڈپی کنداپور مسلم نساء طلبہ کا، اپنے مذہبی عمل آوری ہزاروں سالہ مذہبی روایات مطابق،انکاحجاب پہنے اسکول و کالج آنا، قومی ترانہ دانستا” نہ پڑھے گئے

جیسا کیاجرم عظیم یے؟ قومی ترانہ دانستا” نہ پڑھے جانے کی وجہ دو عیسائی بہنوں کو اسکول سے نکالے جانے اور کیرالہ ہائی کورٹ میں ان کی رٹ پٹیشن کالعدم قرار دئیے جانے کے باوجود،کسی بھی بھارتیہ کے، اپنے مذہبی عقیدے پر عمل آوری کے، اس وقت کےسپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے کا، شخصی مذہبی عمل آوری کے حجاب جیسے عمل پر یکساں اطلاق ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ کیرالہ اسبملی کی اس وقت بٹھائی گئی تفتیشی کمیٹی، رپورٹ مطابق کہ مذکورہ طالبات سوائے قومی ترانہ نہ پڑھنے کے

، قانون پسند شہری تھیں، اور وہ خلاف قانون کوئی کام نہیں کرتی تھیں، تمام تر بہتر اوصاف کے باوجود انہیں صرف قومی ترانہ نہ پڑھنے کی پاداش میں، کیرالہ اسمبلی کی سفارش پر، جو اسکول سے خارج کیا گیا فیصلہ تھا، کرناٹک اسکولی طالبات کا،حجاب ایشو سے پرے اپنی معاشرتی عمل سے، ہر اعتبار سے ایک اچھے شہری ہوتے پس منظر میں، اپنے ہزاروں سالہ مذہبی عقیدے مطابق حجاب پہن کر تعلیمی اداروں میں آنا، کیا

دانستہ قومی ترانہ نہ پڑھنےسے بھی بڑا جرم ہے؟ کہ آج صرف حجاب کے بہانے سے، مسلم نساء کو، اعلی عصری تعلیم سے بیگانہ رکھنے کے لئے، اپنے مسلم دشمن نظریات کے تحت کرناٹک بی جے پی حکومت،پہلے سے منافرتی انکے کھیل سے کمزور ہوتے بھارت میں، ایک نیا منافرتی ہنگامہ کھڑا کر رہی ہے؟

مسلم وکلاء و دانشوروں کو شخصی مذہبی عمل آوری کے، 1986 کے سپریم کورٹ اس تاریخ ساز فیصلے کو بھی، مسلم نساء حجاب معاملہ میں، عدالت عالیہ کے سامنے رکھنا چاہئیے۔ اور وقت وقت کے ساتھ کسی بھی سازش کے تحت، ایسے شخصی مذہبی عمل آوری کے معالے اٹھائے جاتے رہنے کے باب کو مستقل بند کئے جانے کے لئے، دیش کی اعلی عدلیہ کی رہنمائی حاصل کی جانی چاہئیے

آزادی بھارت کے وقت پاکستان بنتے تناظر میں بھارت کی مسلم آبادی کو پاکستان جانے سے روکنے اور انہیں سیکیولر بھارت ہی میں رہنے کی التجا و درخواست کرتے پس منظر میں، پرم پوجیہ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد جیسے ان گنت آزادی بھارت کے بڑے لیڈران کے آشواسن و وعدے پر عمل کرتے ہوئے

ہی، آزاد بھارت کے دستور العمل بناتے وقت بھیم راؤ امبیڈکر کے وضع کئے دستور ھند کی تمہید یا پری ایمبل ہی میں، دی گئی یقین دہانی کو، آج آزادی بھارت پر 75 سال پورے ہوتے پس منظر میں، موجودہ بھارت پر حکومت کررہی سنگھی مودی حکومت، 30 سے 35 کروڑ مسلمانوں کو دستور ھند میں دئیے مذہبی آزادی عمل آوری حق سے محروم کیسے رکھ سکتی ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے

کہ موجودہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ 22 کروڑ کے مقابلے 30 سے 35 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں کے آباء و اجداد نے، اس وقت کےآزادی ھند کے لیڈران ہی کے وعدوں آشواسنون پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنی مرضی سے بھارت میں رہنے کو ترجیح دیا تھا۔ “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسےبلند و بانگ انتخابی دعوؤں وعدوں سے حکومت کر رہی آرایس ایس،بی جی پی جب اپنے انتخابی وعدوں کے پورا کرنے ہی میں پوری طرح ناکام و بے بس نظر آتی ہے ویسے میں

دستور ھند کے تمہید یا پری ایمبل کے خلاف یہ سنگھی حکومت کیسے جاسکتی ہے؟
اسکولی مسلم طالبات کو حجاب سے ماورا رکھنے کی سنگھی حکومتی سازش، نہ صرف بھارت کی آبادی کے پانچویں بڑے حصہ 30 سے 35 کروڑ مسلم آبادی کو، دستور الھند میں انہیں دئیے بنیادی حق عمل آوری مذہبی اقدار کے خلاف ہے، بلکہ دستور الھند میں اس وقت مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل آوری کی دی ہوئی چھوٹ “مسلم پرسنل لاء” پر عمل درآمد روکنے کے مترادف غیر دستوری عمل بھی ہے

۔اسے مسلم پرسنل بورڈ ، ملی کونسل ، مرکزی جمیعت العلماء ھند، مرکزی جماعت اسلامی ھند، مرکزی اہل حدیث کمیٹی، مرکزی شیعہ بورڈ جیسے تمام مرکزی مسلم تنظیموں کو کھل کر ایک لمبی قانونی جنگ لڑتے ہوئے، بھارت کے تیس سے پینتیس کروڑہم مسلمانوں کو سکون و چین آشتی کے ساتھ بھارت میں رہنے دینے کی کوشش کی جانی چاہئیے۔ وما علینا الا البلاغ
کیرالہ کی تین عیسائی لڑکیاں اور سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

فتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ، کریم نگر، تلنگانہ

تاریخِ تحریر: ۱۱ فروری ۲۰۲۲
تفصیل مضمون کے لئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں