“زندہ عدالتوں سے سوال”
تحریر :از کومل شہزادی
“عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے”میں اس موضوع پر کالم لکھنے سے پہلے اگر پاکستانی عدالتوں کے لیے یہ الفاظ پہلےتحریرکردوں تاکہ ان زندہ عدالتوں کو قارئین کے سامنے صراحت سے بیان کرنے اور اس سلسلے میں ہر پہلو پر بات کرنے کی بجائے سب مفہوم سمجھا سکوں۔”عدالتیں یا بادمانی کشتیاں”
جو اپنے فیصلوں کا تعین خود نہیں کرسکتیں بلکہ ہوائیں کرتی ہیں ۔یعنی جن سے کسی بھی فیصلے کی سماعت مناسب وقت پر نہ ہونا یہ پاکستانی عدالتی نظام کی نمایاں خوبی ہے۔یہ قارئین پر ہے وہ اس کو خوبی سمجھیں یا خامی۔پاکستان کا نظام عدل تو خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ایسا نظام عدل کسی ملک میں نافذ رہ کیسے سکتا ہے، مگر ہمارے ہاں تو الحمد للہ 73 سال سے یہ نظام رائج ہے۔
اس ملک میں انصاف کے لئے نسلیں خرچ ہو جاتی ہیں مگر پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا پھر وہ معاشرہ اسی ذلت و پستی میں آ کر گرتا ہے جس پستی میں ہم بطور معاشرہ گر چکے ہیں۔آج ہم اس مملکت خداداد کے نظام عدل پر بات کریں گے کہ کیا واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے تو اس کا جواب ہے نہیں!پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور دین اسلام میں عدل و انصاف کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال صادق آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ: ’’اور اگر تم ان (فریقین) کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو‘ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ (المائدہ: 42)
زندہ عدالتیں بھی تبھی رہتی ہیں اور ان کی جانب رخ کرنے والوں کا عدالتوں پر بھرم بھی تب قائم ہوتا ہے جب ادھر سے تمام فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہوں۔ عدل و انصاف سے ہی بہترین معاشرہ منظر عام پر آتا ہے
۔ورنہ ہمارا مقدر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔پاکستان میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول خواب ہی ہے، جہاں مقدمے کا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔ مدعی انصاف مانگتا ہی مر جاتا ہے۔ ملک میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں۔
چھوٹے کورٹ کے ایک بھی جج کا ریکارڈ اٹھا لیں تو نظر آئے گا کہ انھیں ایک دن میں 150 سے 200 کیس سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے۔انصاف کی فراہمی میں اس تاخیر کا سبب کسی حد تک عوام اور زیادہ حد تک عدلیہ اور وکلا ہیں۔ ہمارے ہاں غیرسنجیدہ اور غیرضروری مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے عدالتی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ صرف فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے
بلکہ اہم مقدمات کی سنوائی میں بھی دیر ہو جاتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت، اہلیت اور قابلیت پر بھروسہ کرنا شکوک و شبہات سے پُر ہے۔ تاہم، توہین عدالت کی کارروائی کے ڈر کی وجہ سے کاروبار اور عمومی طور پر عوام عدالتی نظام کی کمزوری پر انگلی نہیں اٹھا پاتے
۔عام عوام کا اب اس نظام پر کسی قسم کا اعتماد باقی نہیں رہا۔ اسی لیے دیکھیں اس نظام کو جلد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ یہ بے انصآفی اس ریاست کو کھا جائیگی ۔انصاف میں تاخیراورمنتظر رہنے والے دنیا سے رخصت ہوجائیں گے لیکن فیصلہ نہیں ہوگا۔ یہ ہمارا نظام ہے اور یہ ہی حقیقت ہے۔بقول شاعر:
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیئے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہئیے
خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کے لئے
خواہشوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیئے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے
کون کون سے سانحات نہیں ہوئے آج تک ان کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔آخر کتنے ہی کیسز ہیں جن کو شائد بیان کرنے لگ جاو تو ایک کتاب تیار ہوجائے لیکن سب ثبوت مجرموں کے ہونے کے باوجود کسی کو سزا کیا فیصلہ بھی نہیں سنایا جاتا کیس دب جاتا ہے یا ایک روایت جو پاکستانی عدالتوں کا اہم شیوا ہے
تاریخ پر تاریخ اور یہ ان زندہ عدالتوں کی حقیقت ہے۔شاہ زیب کی ماں کے سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ کر جج صاحب کو جو الفاظ بولے وہ دل دہلا دینے والے تھے۔۔جج صاحب اب میرے پاس بیچنے کیلیے کچھ بھی نہیں ہے اور میں مزید اپنی بیٹیوں کے ساتھ اس کیس کی پیروی نہیں کر سکتی
لہذا میرا کیس اس عدالت سے خارج کیا جائے۔علاوہ ازیں چھ سال ہوگئے سانحہ ماڈل ٹاون کے شہیدوں کے لواحقین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔اور ملنے کی اُمید بھی نہیں لگتی ان عدالتوں سے کہ وہ اسی طرح عثمان مرزا کیس اور ناجانے اور بے شمار کیسز کو الجھا کراور ڈرامے بازیاں کر کے آخر مجرم نکل جاتے ہیں۔
کون کون سے حادثات رونما نہیں ہوئے آج تک ان کا فیصلہ نہی ہوسکا۔گزشتہ پیش آنے والے شرمناک واقعہ نور مقدم جس نے اس کیس نے ہر انسان کو ہلا کر رکھ دیا. جو نہیں ہلے وہ انسان ہی نہیں تھے۔نور مقدم کیس کی بات کی جائے تو میں زیادہ تفصیل میں نہیں لکھوں گی کیونکہ سب اس المناک واقعہ سے اچھے سے واقف ہیں
۔تمام ویڈیوز اور بیانات جو قتل کے بعد ملے اُن سے قتل ہونا اور ظاہر جعفر کا مجرم قرار پایا گیا۔آخر کیا وجوہات جو اس کیس کو اتنا طویل کیا جارہا۔یقین کریں سب کو پتہ ہے کہ ڈرامہ ہے جج جانتا ہے کہ قاتل ہے عوام بھی، مگر پھر چھوڑ دیا جائیگا ۔ انصاف کے تقاضے پورے ہونگے۔ نوازشریف بھی ایسی ہی حرکتیں کر رہا تھا اور باہر بھاگ گیا۔ عدلیہ جانتی سب ہے مگر کھیل پیسے کا ہے اور بندر ناچ شروع ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔بقول حبیب جالب:
کمینے جب عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
امید ہے ہماری اندھی عدلیہ اس کو بھی صادق امین اور شریف قرار دے کر بری کر دے گی۔پاکستان میں عدالتی کارروائی سے بچنے کے لئے دو طریقے سب سے آزمودہ ہیں یا تو آپ کے پاس دولت ہونی چاہیے یا آپ کو ایک بہترین اداکار ہونا چاہیے۔نور مقدم کے قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کا قتل انہی کے ہاتھوں سے ہوا تھا۔انھوں نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ ’مجھے سزا دینی ہے یا معافی اور یہ بھی بتائیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔
ظاہر جعفر نے رحم کی اپیل کی ہےظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پھانسی دے دیں یا معافی دے دیں میں جیل میں نہیں رہ سکتا۔ظاہر جعفر نے نور مقدم کا سر دھڑ سے الگ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’قربانی اسلام میں بھی جائز ہے‘ اور نور مقدم نے ’خود کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا
۔ اب اس کو بچانے کے لیے وہی ڈرامے بازیاں جو اس نظام میں چلتی آرہی ہیں۔سب ٹوپی ڈرامہ ہے ۔ قتل ثابت ہو چکا ہےکیس کو کمزور کرنے کے لیئے نت نئے حربے استعمال کیئے جا رہے ہیں۔وکلاء ایسی بےشمار نوسربازیاں کرتے ھیں اپنے کلائنٹ کو بچانے کے لیے اوروہی اب اس کیس میں سب ہورہا ہے۔جان بوجھ کر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے یہ ٹوپی ڈرامے لگائے ہوئے ہیں۔
سب سامنے ہے لاش مل چکی ہے
، آلہ قتل موجود ہے ، پولیس خود موقع واردات پر پہنچ گئی تھی ، ویڈیوز موجود ہیں ۔۔اور کیا چاہئے ؟؟سیدھا سیدھا رہاکردو اور رپورٹ میں لکھ دو کہ طبعیی موت تھی کیونکہ یہ ملک پاکستان ھے یہاں کچھ بھی ھوسکتاھے لیکن کمزور کو انصاف نہیں مل سکتا یہی اس ملک کے قانون میں لکھا ھے۔یہ تفشیشی افسر نہیں اس پیسے والے کے باپ کا پیسہ بول رہا ہے، جس ملک کا چیف جسٹس شراب کو شراب ثابت نہ کر سکے تو اس ملک کے نظام انصاف سے یہی توقع کی جا سکتی ہے۔زندہ عدالتوں سے میرا سوال کیا
انصاف ہوگا مجھے اپنے ملک کی عدالتوں سے ہرگز انصاف کی امید نہیں برملا کہتی ہوں پچھلے فیصلے دیکھ کر کہہ رہی ہوں اور انصاف ۱۲۶ نمبر پر دیکھ کے کہہ رہی ہوں۔اس ڈرامے کا کب The End ہو گا؟ قتل کرتے وقت تو حالت ٹھیک تھی۔ آخر سب شواہد، ثبوت ہونے کے باوجود نور مقدم کی روح کو انصاف کیوں نہیں ملا؟ظاہر جعفر کے کیس میں سب سے اچھا برتاؤ عدالت کا ہے، کاش ہر قتل کے کیس میں عدالتیں ایسے ہی عملی برتاؤ کریں۔قانون اس ملک میں ہے نہیں یہ ملک کیسے چل رہا ہے
اللہ جانے ۔اس ملک کا قائم رہنا ہی ایک معجزہ ہے ورنہ اتنا ظلم قانون کا قتل انسانیت کا ننگا ناچ آئے دنُ ہونا کوئی طاقتور بھی عدالت جج کا مذاق بنا کر نکل جائے سیاستدان دن رات جھوٹ بولے یہ بھی جھوٹ بول کے بچ نکلے گا۔جب بھی کسی بڑے آدمی پر کوئی کیس چلتا ہے وہ عدالت جاتے ہی بیمار ہو جاتا ہے اسے ہسپتال میں VIP روم مل جاتا ہے اور جب ضمانت ہوتی ہے بلکل ٹھیک ہو جاتا ہے پاکستان میں قانون صرف غریب کے لیے ہے۔بقول شاعر:
“ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
لوگ قتل بھی کرتے ہیں مگر چرچا نہیں ہوتا “
المختصر،کیسا قانون اور کیسا عدالتی نظام ہے۔آخر ان عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔لوگ ذلیل وخوار ہونے سے بہتر مقدمات کی پیروی ہی چھوڑ دیتے ہیں۔زندہ عدالتوں سے ایک مردہ سوال ہے۔آخر ہماری زندہ عدالتیں کب عملی طور پر زندہ ہوں گی۔یہ انصاف ہی ہے جس نے امریکا جیسے سڑے اور بیمار معاشرے کو زندہ رکھا ہوا ہے
۔لیکن ہمارے ہاں انصاف کیا نہیں جاتا بلکہ بکتا ہے جو جتنا دام لگائے گا اُتنا ہی اُس کے حق میں انصاف پیش کردیا جائے گا۔حضرت علی کے قول سے اس کا اختتام کرنا چاہوں گی مزید اس بوسیدہ نظام پر لکھنا اپنے الفاظ کا ضیاع ہے۔” معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں۔”
آخر میں اس کیس میں نورمقدم کو انصاف دلوانے کے لیے جوجستجو کرتے رہے اور کررہے ہیں انکی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ افسران کی محنت کا پھل انصاف آور قانون کے مطابق ملے۔