حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے! 116

عدم اعتماد پر عوامی ردعمل !

عدم اعتماد پر عوامی ردعمل !

تحریر :شاہد ندیم احمد

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کوششوں اور سرگرمیوں کی گریٹ گیم جاری ہے ، اس حوالے سے ہر آنے والے دن میں ایک نئی پیشرفت سامنے آرہی ہے کہ جس کا توازن اپوزیشن کے حق میں اور کبھی حکومت کی حمایت میں نظر آتا ہے ،لیکن اب تک کے دکھائی دینے والے منظر پر فی الوقت اپوزیشن کو اپنے مقاصد میں کوئی فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوتے دکھائی نہیں دے رہی ہے، بالخصوص اپوزیشن کے بھاری بھرکم رہنمائوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کے جن راہنمائوں سے ملاقاتیں،

رابطے اور پیغام رسانی کی ہے، گوکہ ان کی طرف سے انہیں قطعی طور پر مایوس بھی نہیں کیا گیا، لیکن واضح لفظوں میں کسی خوشخبری کی یقین دھانی بھی نہیں کرائی جارہی ہے۔.
اس بدلتی صورت حال سے نصف صدی سے رموز سیاست کے کھلاڑی خوب محظوظ ہو رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اپنی طرز سیاست اور انداز تکلم میں حالات کے پیش نظر ہی سہی

،لیکن مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں ، انہوں نے چوہدری فیملی پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خراج تحسین بھی پیش کیا ہے ،جبکہ چوہدری مونس الٰہی نے وزیراعظم کو ساتھ نبھانے کی نہ صرف یقین دہانی کرائی ،بلکہ پی ٹی آئی رہنمائوں کو نہ گھبرانے کا حوصلہ بھی دیا ہے۔
سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی، اس کا اطلاق پاکستان کی سیاست پر کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، ایک وقت تھا کہ جب چودھری برادران ذولفقار علی بھٹو کو چودھری ظہور الہی کا قاتل گردانتے تھے، انہوں نے بھٹو مخالفت میں ضیا کا ساتھ دیا، آصف علی زرداری چودھری برادران پر بے نظیر کے قتل کا الزام لگاتے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ آصف علی زرداری چودھریوں کے ڈیرے پر گئے

اور چودھری برادران نے بھی آصف علی کی زیر صدارت وزارت سنبھالی تھی، اس بات کو بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ جب عمران خان چودھریوں کو چور، ڈاکو نہ جانے کیاکہتے تھے اور پھر قدرت عمران خان کو بھی چودھری برادران کے کا شیانے پرلے گئی اور اب شہباز شریف جو چودھری صاحبان کو یتیم سیاستدان سمیت نہ جانے کن القابات سے نوازتے تھے خود چل کر اپنے مفاد کیلئے چودھریوں کے گھر پہنچے ہیں

،تاہم دیکھنا ہے کہ اس سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے درمیان رابطوں کا ابھی تک کوئی ثمر نہیں ملا ہے، تاہم اپوزیشن کے پُرامید رہنماسمجھتے ہیں کہ حکومتی اتحادی اشاروں کے منتظر ہیں اور جب انہیں کوئی اشارہ ملے گا تو اپوزیشن کا ساتھ ضرور دیں گے

،اپوزیشن قیادت پر امید ہے کہ حکومتی اتحادیوں کو جلدہی اشارہ ملنے والا ہے ، اپوزیشن میں پر امید شخصیات سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف آئندہ چند ہفتوں میں تحریک عدم اعتماد آجائے گی

،یہ تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے کہ نہیں ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن اس کے آثار دونوں جانب سے کچھ اچھے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔بے شک ہماری سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا اور کل کے حریف آج کے حلیف بنتے ذرا دیر نہیں لگاتے ہیں،تاہم اس مفاداتی سیاست میں عوام راندہ ٔدرگاہ ہی رہتے ہیں،عوام کو صرف اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہی استعمال کیا جاتا ہے ،عوام کبھی ووٹ کیلئے استعمال ہوتے ہیں تو کبھی انہیں احتجاجی جلسوںا و رریلیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے

،مگر عوامی مسائل کے تدارک کیلئے کوئی سیاسی جماعت بھی سنجیدہ نہیں ہے، عوام کا اپنے روزمرہ مسائل کے حل نہ ہونے پر ردعمل سامنے آنے لگاہے، اگرحکومت کے اگلے ایک سال کے دوران بھی عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل نہ ہو پائے اور مہنگائی،بے روز گاری کا تسلسل یو نہی برقرار رہا تو اسکے ردعمل میں اپوزیشن کی ہائوس کے اندر سے تبدیلی کی کوشش چاہے کامیاب نہ بھی ہو پائے ،مگرآئندہ انتخابات میں حکمران پارٹی کو عوام کے ہاتھوں ہزیمت ضرور اٹھانا پڑے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی تر جیحات میں کبھی عوام نہیں رہے ،دونوں ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں لگے ہیں ، جبکہ عوام بڑھتے مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں،عوام کی زندگی میں حکومت کے بدلنے سے کوئی تبدیلی آئی نہ تحریک عدم اعتماد سے کچھ بدلنے والا ہے

،عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کاسب کھیل تماشا اپنے حصول اقتدار کا ہے ،اس لیے عوام کسی کھیل کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ہیں ،عوام اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں،اس تبدیلی کیلئے انہوں نے پہلے آزمائے ہوئے لوگ مسترد کیے اور اب ضمنی انتخاب سے لے کر بلدیاتی انتخابات کے نتائج سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونے چاہئیں،یہ عوامی ردعمل ہے جو کہ آئندہ عام انتخابات میںاس سے بھی شدید ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں