تذکرہ اولاد ِ نبیﷺ کا 131

آتش ِ شوق

آتش ِ شوق

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

آج مدینہ منورہ میں خاصی چہل پہل تھی لگتا تھا جیسے عیدکا سماں ہو پیاری پیاری بچیاں دف بجاکرخوشی کااظہارکررہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں ا نا بدرعلینا کیونکہ آج سرکار ِ دوعالم ﷺ کی آمد آمدتھی سینکڑوں آنکھیں آپ کا رخ انور دیکھنے کو بے تاب تھیں جب اللہ کے آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آنے لگے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا

تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا اہتمام کر رہا تھا اور سب کا یہی اصرار تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے تبسم فرماکرکہا میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھرکے آگے اونٹی بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی اور پھر اونٹی ایک دو منزلہ خوبصورت مکان کے آگے رک گئی ۔۔۔ یہ مکان کس کا تھا؟ اونٹی اسی گھرکے آگے کیوں رکی؟

یہ سوال بڑے غورطلب ہیں اس کے لئے ماضی میں جاناہوگا۔یمن کے اس بادشاہ کی عجب سج دھج تھی علم پرور،انصاف پسند،انتہائی ہمدرد ،بڑا نستعلیق،جاہ و حشمت کا مالک ، حضور اکرم صَلَی اللہّٰ ْ عَلیہِ وَالہ وسَلَّم کی ولادت ِ باسعادت سے ایک ہزار سال قبل ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا تو اس کی معیت میں بارہ ہزار عالم اور حکیم ،دانشور،شاعر ،مختلف علوم و فنون کے ماہرین ساتھ تھے ایک لاکھ بتیس ہزار سوار ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا

اس کی شان و شوکت،رعب دبدبہ دیکھ کر ہرکوئی متاثر ہوئے بغیرنہ رہتا اس کا انداز شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی بادشاہ لوگوںمیں انعام وکرام میں اشرفیاں تقسیم کرتا آگے بڑھ جاتا شہرت کا یہ عالم کہ ضرورت مند گھنٹوں پہلے پہنچ کر اس کے کارواںکاانتظارکرتے۔تبع اول حمیری بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا حجاز ِ مقدس کے علاقہ مکہ معظمہ جاپہنچا تو یہ دیکھ کرحیران بلکہ پریشان ہوگیا کہ یہاں کوئی اس کے استقبال کے لئے موجود تھا نہ ضرورت مندوںکی لمبی قطاریں راستے میں جس انداز اور شان سے وہ آیا تھاوہ اسی شایان ِ شان استقبال کا متمنی تھا
’’یہاں کے لوگ دوسروں سے مختلف ہیں بادشاہ نے حیرت سے اپنے وزیر اعظم سے دریافت کیا
’’ جناب۔۔ اس نے بڑے ادب سے بتایا کہ اس شہر میں ایک اللہ کا ایک گھر ہے جسے سب خانہ کعبہ کہتے ہیں یہاں پورے عرب سے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں شاید اسی وجہ سے لوگوںنے آپ کی آئو بھگت نہیں کی
’’ کمال ہے بادشاہ نے کہا عجب بے مروت لوگ ہیں جنہیں ہماری شان اور مرتبے کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
’’بادشاہ سلامت۔۔ وزیرِ اعظم نے سرکو خم دے کر جواب دیا لوگ خانہ کعبہ کی بے حد تعظیم کرتے ہیں ہمارے لشکر سے زیادہ لوگ ہمیشہ یہاں آتے ہیں۔
یہ سن کر بادشاہ آگ بگولہ ہوگیا اس نے غصے میں کہا مجھے قسم ہے جن لوگوںنے میرااستقبال نہیں کیا میں ان کو قتل کروا دوں گا میری بے عزتی کی انہیں ضرور سزا ملے گی اور میں اس گھر کو بھی مسمارکردوں گا۔
بادشاہ نے سپہ سالارکو حکم دیا کہ تیاری کرو ان بے مروت اور گستاخ لوگوںکو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے ۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا اور اپنی مسندکی طرف بڑھاہی تھا کہ چکراکرزمین پر آ گرا پھر بادشاہ چیخنے چلانے لگا کیونکہ اس کے ناک منہ اور آنکھوں سے عجیب سا خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ خارج ہونے لگا کہ اس کی بدبو سے ماحول آلودہ ہوگیا پل بھرمیں بادشاہ کی حالت ہوگئی

کہ ایسی ہوگئی اسے بیٹھنے کی بھی تاب رہی نہ جسم میں طاقت ۔بادشاہ کے ساتھ آئے ہوئے حکیموں ،طبیبوںکو اس بیماری کی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی پھربھی انہوںنے اپنی سمجھ سوچ کے مطابق اس مرض کا علاج کیا گیا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا بادشاہ کا درد اور اذیت سے براحال تھا بادشاہی علماء بھی سرجوڑ کر بیٹھ گئے ایک زیرک طبیب نے بادشاہ کی نبض دیکھی اس کے چہرے پر مایوسی کے آثارنمایاں تھے پھراس نے بوجھل لہجے میں اپنے قریب علماء ، حکیموں ،طبیبوںکو کہا مجھے لگتاہے یہ مرض آسمانی ہے اور ہم سب علاج زمینی کررہے ہیں بڑے حکیم نے بڑی سنجیدگی سے کہا
اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں اس مرض سے بچنے کایہ واحد راستہ ہے اور جتنا ہوسکے صدقہ،خیرات اور استغفارکریں۔بادشاہ کے دل میں اس بات ترازو ہوگئی وہ اپنے خیالات پر بہت شرمندہ ہوا اور بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کرلی کچھ ہی دیر بعد اس کی حالت سنبھلنا شروع ہوگئی، بدبودار خون اور غلیظ مادہ بہنا بند ہو گیا جس روز بادشاہ نے غسل ِ صحت کیا اس نے اپنے لائو لشکرکے ساتھ بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا

اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔ پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے علماء سے کہا مجھے اس سرزمین سے بڑی مہکی بھینی بھینی خوشبو آرہی ہے یقینا یہ ایک مقدس جگہ ہے اس کے ہمراہ الہامی کتابوں کے علوم کے ماہر ایک عالم نے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انہوں نے پڑھی تھیں یہ ساری باتیں بادشاہ کے گوش گذارکردیں کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کی جائے

ولادت ہے اس دھرتی کی جتنی بھی تکریم کی جائے کم ہےبادشاہ نے ان سب سے باہم عہد کرلیاکہ ہم یہاں پوری زندگی بسرکردینگے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو ہم ضرور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف کی زیارت سے مشرف ہوں گے ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی ہوگی کہ وہ اللہ کے آخری نبی کے عہدمیں آنکھ کھولیں گے جو ہمار ی نجات کے لئے کافی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے تبع اول حمیری کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اس نے بھرائی ہوئے

لہجے میں کاش میں بھی اپنی آنکھوں سے اس مقدس شخصیت کو دیکھ پاتا اور اس کے قدموںکی دھول کو اپنی چشم ِپرنم کا سرمہ بنا لیتا اے کاش۔۔ اے کاش آتش ِ شوق سے اس کا سینہ جو کچھ دیر پہلے سلگ رہا تھا محبوب ِ خدا کانادیدہ سراپا تصورمیں آیا توجیسے ٹھنڈ سی پڑگئی بادشاہ نے ان عالموں،حکیموں اور طبیبوں کیلئے 400 مکان بنوائے اور الہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کیلئے مکان کے پاس حضور کیلئے دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں

تو میری خواہش ہے یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کو اشرفیوںکی تھیلیاں دے کر کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھرالہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمہیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتیٰ کہ سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کریمن کا بادشاہ تْبّع حمیری اپنے وطن لوٹ گیا
آج مدینہ منورہ میں خاصی چہل پہل تھی لگتا تھا جیسے عیدکا سماں ہو پیاری پیاری بچیاں دف بجاکرخوشی کااظہارکررہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں انا بدرعلینا کیونکہ آج سرکار ِ دوعالم ﷺ کی آمد آمدتھی سینکڑوں آنکھیں آپ کا رخ انور دیکھنے کو بے تاب تھیں جب اللہ کے آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آنے لگے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا اہتمام کر رہا تھا

اور سب کا یہی اصرار تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے تبسم فرماکرکہا میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھرکے آگے اونٹی بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی اور پھر اونٹی ایک دو منزلہ خوبصورت مکان کے آگے رک گئی ، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا اسی کے آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ملاحظہ فرمائیںشاہ یمن تبع حمیری نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا
’’کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی آپ پر ایمان لاکر آپ کی بیعت کرتا ہوں میں صدق ِ دل سے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے پھرالہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور ۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔
حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا حضور نے پڑھ کر فرمایا صالح بھائی تْبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
بحوالہ کْتب (میزان الادیان)(کتاب المْستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں