اپنےصحیح رہبران کی وقت رہتے قدر کرنے والے ہی یقینا سرخروہوتے ہیں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ڈوبتی برباد ہوتی ہوائی کمپنی، اب وفاشعار کماؤ فرزند کی طرح ملکی معشیت کو سہارا دے رہی ہےاپنے وقت کی ترقی پذیر مکی ہوائی کمپنی، “پی آئی اے” سابقہ چار دہوں والے تابناک دور ترقیات عالم میں، لوگوں میں ترقی پذیر حکومت مشہور دو خاندانی حکمرانوں کے ہاتھوں لٹی لٹائی، خسارے میں چلتے ہوئے، عوامی ٹیکس پیسوں کے بل پر زندہ رکھی گئی “پی آئے آئی” الحمد للہ 2018 خان حکومت اقتدار آنے کے بعد، اپنے تمام شیطانی تخیلاتی پوسٹوں کی چھٹنی ،اور غیر ضروری فضول خرچیوں پر لگام کستے ہوئے
، دوخاندانی نظام کئی ایک گھرانوں کو آباد کرنے والے چور راستوں کو بند کرتے ہوئے، اب ماشاءاللہ ملکی معشیت پر بوجھ والے اپنے وجود کو، کم و بیش اپنی آٹھ ارب روپئیے سالانہ آمدنی کے ساتھ، ملکی معشیت کے کماؤ فرزند جیسی کمپنی، اپنے آپ کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس کے لئے اپنے طور خود کفیل، خدا خوفی خان جیسے حکمران اور دیش کی افواج محکمہ ہوا بازی کا ملک مشکور ممنون و صدا رہے گا۔
جس معاشرہ کا آوے کا آواہ ہی بگڑا ہوا ہو، اس معاشرے کو ترقیات کی راہ پر گامزن کرنا، اتنا آسان فعل نہیں ہوا کرتا۔ ملکی معشیت کو دیمک کی طرح چاٹ کھاتے، اسے کمزور کرنے والی مختلف مافیہ کا مکر و جال، ہمہ وقت ایک دوسرے سے مربوط رہتے، کسی بھی طاقت کو،ان کے شکنجوں سے، اسے آزاد نہیں ہونے دیا کرتا۔ عالمی یہود و نصاری اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں ملک کو مقروض بنائے،
انکی شرطوں پر ملکی عوام کو ہزارہا اقسام کے ٹیکسوں میں الجھائے رکھے، ان کے اشاروں پر،ملکی حکمرانوں کو اسلام دشمن فیصلے لینے پر مجبور کرنے والے، عالمی یہود و نصاری سودی نظام میں جکڑے ملک کو آزاد کروانا، جوئے شیر لانے سے کم کام تھوڑی نا ہے؟یہود و نصاری عالمی قوتوں کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر زندہ رہنے والے گیڈر نما سیاستدان، شیر کی تصویر کو اپنی انانیت کی پہچان بنانے سے، شیر والے اقدار، ان میں نہیں آیا کرتے، بلکہ اپنے ایام جوانی کھیل کے میدانوں میں شیر کی طرح صدا ڈھاڑنے والوں میں ہی، شیر کے اقدار کو پایا جا سکتاہے۔جیتی ہوئی کارگل بازی،
اپنے نصرانی آقاؤں کے اشاروں پر ہارتے ہوئے، عالم کے ایوانوں میں ملکی وقار داؤپر لگانے والے، چڑیا گھر کے پالتو شیر کے ساتھ خود نمائی کرنے والوں کے مقابلے، اپنے باہمت عملی افعال و اقدام سے، عالمی طاقتوں کو، “نہیں ، بالکل نہیں ، کسی بھی صورت نہیں،” جیسے اہنے مثالی کردار سے، انہیں اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے والوں سے ہی، ملک کی ترقیات مضمون ہوا کرتی ہیں۔ ایسے وقت ہمیں اٹھآرویں صدی کے شیر خدا، والی میسور حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کا وہ مشہور مقولہ یاد آتا ہے
، جو انکی زبان سے نکلے اس معرکہ الآراء جملے پر، 223 سال لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی، آج کے ترقی پزیر دور جدید میں بھی، عزم و جرآت و جوانمردی کی دلیل کے طور دہرایا جاتا ہے۔ غدار وطن افواج مراٹھا شیواجی و افواج نواب حیدرآباد کی انگریزوں کے ساتھ مشترکہ افواج مدد و نصرت کے ساتھ، سری رنگا پٹنم 1799 کے محاذ جنگ میں، مشترکہ افواج کے شکت کھاتے تناظر میں، حضرت ٹیپو سلطان کے اس وقت کے معتمد خاص انکے وزراء شیعی میر جعفر اور اسکے وزیر مالیات ھندو پورنیا کو، نواب حیدر آباد و راجہ شیواجی کے واسطے سے، بغاوت پرآمادہ کر،شکشت فاش ہوتی
انگریز افواج کو، فتح میں بدلتے تناظر میں، اپنی ننگی تلوار سے دشمن کےدانٹ کھٹے کرتے حضرت ٹیپو سلطان کو، انکے ایک معتمد خاص کے میدان کارزار سے فرار ہونے کی صلاح دیتے پس منظر میں، حضرت ٹیپو سلطان نے، ہوا میں تلوار لہراتے ہوئے کہا تھا “ہزار سالہ گیڈر کی (کسی اور ملک میں پناہ لی ہوئی) زندگی پر،شیر کی ایک دن کی آزاد زندگی جینے کو وہ اپنے لئے بہتر تصور کرتے ہیں”، یہ کہتے ہوئے بہادری سے لڑتے ہوئے، حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ نےاپنی جان آفرین قربان کی تھیں
کیا آج کی رزمگاہ سیاست میں بھی، غدار وطن میر صادق و جعفر کو ہم اپنے درمیان نہیں پاتے ہیں؟ اس وقت کے مشترکہ ھند و پاک آزادی ھند کے ھیروز کو، اپنے مکر جال سے شکشت فاش دینے میں منہمک، فرنگی انگرئزوزن کی جگہ پر،کیاآج کےعالمی یہود و نصاری سازش کنندگان کو، ہمارے درمیان کھڑے ہم نہیں پاتے ہیں؟ یہی وہ عالمی یہود ونصاری طاقتیں ہیں جو عالم کے نقشہ پر، اپنے مکروہ فن سازش سے،
گریٹر اسرائیل والے مکر جال کو، شہر مدینہ کی سرحدوں تک پھیلانے کی ان کی سازشوں کے آگے، عالمی اکلوتی ایٹمی قوت ملک کو، اپنی عالمی سازشوں کی راہ میں سب سے بڑا روڑا اور خطرہ تصور کرتے ہوئے، ان کے اپنے عالمی معشیتی اداروں کے توسط سے، اسے قرضوں میں جکڑے دائمی طور اسے اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور چونکہ سابقہ دو خاندانی حکمرانوں نے، اپنے ذاتی مفاد کے لئے ،
ہمیشہ اپنے ملکی مفاد کو قربان کرتے ہوئے،ان عالمی اداروں کی مرضی کے آگے، کسی پالتو جانور کی طرح صدا دم ہی پلائی ہے اسی لئے عالمی یہود و نصاری طاقتیں، انہیں آنکھ دکھاتی، “نہیں، کبھی نہیں” کہنے والے خان کو، اقتدار سے بے دخل کر، انکے اشاروں پر دم ہلانے والوں کو مصند اقدار پر واپس لانے ہی میں وہ منہمک پائے جاتے ہیں
ایسے میں ہم 22 کروڑ مسلمان شیر خدا حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کے قول و عمل مصداق، ذرا مہنگائی برداشت کر، عزت و اکرام و شان والی زندگی جینے کے لئے، اپنے عظیم لیڈر خان کی پیٹھ پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح، کیا کھڑے پائے نہیں جاسکتے ہیں؟ اور جس مہنگائی کا رونا ہم صدا روتےرہتے ہیں اس مہنگائی کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک، گھر بیٹھے، مہنگے مغربی فاسٹ فوڈ آن لائن منگوا کھانے میں، عالم کے اور ملکوں کی صف میں، سب سے آگے والے پائیدان پر کھڑا پایا جاتا ہے۔لیکن مہنگائی پر ہمارا رونا اور اپنے لائق لیڈر خان کی عالمی سائبر میڈیا پر ہتک کرنے سے ہم بازنہیں آتے ہیں۔
کیا ہم والی اسلام قوم، مقدر پر اپنے ایمان کو ہم بھول چکے ہیں، ایک امین و نڈر رہبر ہم آپ کو اچھی قدر و منزلت والی زندگانی دینے میں جہاں ناکام پایا جائے وہاں ہمارے ملکی رئسورسز اور ہمیں لوٹتے ہوئے،اپنی آل کے لئے ہزاروں کروڑ کی جائیدایں چھوڑ جانے والے ملک بدر لیڈران، کیا ہمیں اپنے پرور دگار کے لکھے یا متعین کئے تقدیر سے زیادہ خوش و خرم رکھ پائیں گے؟ یہ ہم آپ کو بحیثیت مسلمان سوچنا اور تدبر کرنا پڑیگا۔
ہوسکتا ہے ان چار سالوں میں، پہلے سے خسارے میں چل رہی ملکی جہاز رانی کمپنی کو آٹھ ارب سالانہ فائدے میں بدلنے میں کامیاب یہ سرکار کچھ سالوں بعد، ہمارے اسلامی ملک کو، عالمی سودی قرض نظام ہی سے ماورا کئے، شان و اقدار سے ہمیں سر اٹھائے سینہ تانے جینے والوں میں سے بنائے واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ