حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے! 122

سرد جنگ میں وزیر اعظم کادورہ روس !

سرد جنگ میں وزیر اعظم کادورہ روس !

تحریر :شاہد ندیم احمد

وزیراعظم عمران خان دو روزہ دورے پر روس پہنچ چکے ہیں، جہاں ان کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات ہو گی، بدلتے عالمی حالات اور نئی سرد جنگ کے تناظر میں وزیر اعظم پا کستان کا دورہ ٔروس خصوصی اہمیت کا حامل ہے، وزیراعظم کا دورہ ٔروس ایسے حالات میں ہورہا ہے کہ جب امریکا روس کشیدگی میں انتہائی اضافہ ہوگیا ہے ،امریکہ اور روس تنازعہ یوکرین پر ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دیے رہے ہیں، دنیا کے سر پر ایک بڑی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا ہے،

اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو اس سے کوئی ایک خطہ نہیں، پوری دنیا ہی متاثر ہوگی۔یہ امرواضح ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ،تاہم حیرانگی کی بات ہے کہ دوسروں کو مذاکرات سے اپنے تنازعات کے حل کا سبق دینے والے خود ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دینے لگے ہیں ،امریکا اور روس کے درمیان تنازعہ یو کرین کوئی نیا نہیں پرانا ہے ،یوکرین سابق سوویت یونین کی ریاست ہے

کہ جس کے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کش مکش امریکا اور روس کے درمیان چلی آرہی ہے،اس سلسلے میں روسی صدر کی طرف سے تازہ اقدام دو علیحدگی پسند ریاستوں کوآزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنا ہے، امریکا اور یورپ نے اسے حملہ قرار دیتے ہوئے روس پر مالیاتی پابندیاں عائد کردی ہیں،اس بدلتی صورت حال میں وزیراعظم پا کستان کے دورہ ٔروس کی نزاکت مزید بڑھ گئی ہے۔
اس میں شک نہیں

کہ پا کستان نے پہلے بھی عالمی بلاک کا حصہ بن کر نقصان اُٹھایا اور اگر اب بھی کسی ایک بلاک کا حصہ بن کر کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مزید نقصان اُٹھانا پڑے گا ،اس لیے وزیر اعظم نے دورہ روس سے قبل ایک انٹرویو میں اپنا واضح موقف دہرایا ہے کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ بننے کی غلطی نہیں دہرائے گا، امریکی بلاک میں جانا پا کستان کی غلطی تھی،اس غلطی کو دوبارہ دہرایا نہیں جائے گا،

ماضی میں بھی سرد جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور یہ نئی سرد جنگ بھی دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہو گی،اس لیے روس، چین اور امریکا سمیت تمام طاقتوں کے درمیان تعاون انسانیت کے مفاد میں ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا اور مغربی دنیا کی سیاست نے ایک بار بھرسرد جنگ شروع کردی ہے، اس کے اہم کردار چین اور روس ہیں،چین کا گھیرائو کرنے کے لیے امریکا نے 4 ممالک کا فوجی اتحاد قائم کیا ہے، اس میں بھارت شامل ہے،بھارت اور امریکا کے درمیان تزویراتی شراکت داری کا مقصد چین کا گھیرائو ہے۔ اسی مقصد کے لیے امریکا نے چین کے عالمی مواصلاتی منصوبے بی آر آئی کے خلاف اعلان جنگ کررکھاہے کہ جس کا ایک اہم ترین حصہ سی پیک ہے، ایک طرف چین اور روس اتحادی ہیں ،جب کہ دوسری جانب بھارت کی دوستی روس سے بھی قائم ہے،
بھارت کبھی کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں رہا ہے ،جبکہ پاکستان کی تاریخ میں امریکی غلامی رہی ہے،تاہم اس وقت بدلتی عالمی صف بندی کا ایک سبب افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی عبرت ناک فوجی شکست ہے، امریکا طالبان سے مذاکرات کرکے اپنی فوجوں کو نکال کر تو لے گیا، لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے،اس کی وجہ سے مستقبل میں نئے بحران کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے،وزیراعظم کے دورے میں افغانستان کا مسئلہ بھی زیر بحث آئے گا

،روس اور چین کی حکومتیں افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعاون تو کررہی ہیں، لیکن انہوں نے ابھی تک مختلف عالمی سفارت کاری کی پیچیدگیوں کے سبب طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے ،حالا نکہ روسی قیادت اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان کے اثرات روس کی سابقہ ریاستوں پر بھی پڑتے ہیں۔
بلاشبہ ہر ریاست کے اپنے مفادات ہیں ،پا کستان کو بھی اپنے مفاد کے ساتھ بدلتے حالات میں متوازی رہنا ہو گا
، دوسری جانب کوئی بھی معمولی غلطی پاکستان کے وسیع تر مفادات کے لئے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے،اگر چہ وزیراعظم عمران خان ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سرد جنگ کے حوالے سے کسی کیمپ میں شامل نہیں ہوگا ،بلکہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے گا،تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مقتدرہ پر اعتماد کرسکتے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے تو جان بوجھ کر جوہری طاقت رکھنے والے ملک کو ایف ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی غلامی میںدے دیا ہے، کیا آئی ایم ایف اور فیٹف کی زنجیروں میں جکڑے ہوئی قیادت حقیقی معنوں میں امریکا کو انکارکرسکتے ہیں۔
در اصل پاکستان اپنے حجم، معاشی مشکلات اور سفارتی محدودات کی وجہ سے کسی بھی عالمی تنازعہ میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ،تاہم چین اور روس کے ساتھ تعلقات مستحکم ضرور کرسکتا ہے ،

اس سے مراد یہ نہیں کہ امریکہ کے ساتھ دشمنی مول لینے پر آجائیں، بلکہ خطے کی امن و سلامتی اور علاقائی خوشحالی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہمارے چین اور روس سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کار میں مضبوطی آئے، موجودہ حکومت اسی پالیسی پر گامزن ہے کہ جس کے باعث روس کے ساتھ جاری سردمہری کا خاتمہ ہورہاہے ، ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار اقتصادی مراسم کے دروازے بھی کھول رہے ہیں،اس سے زیادہ سرد جنگ میں دورہ روس سے توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں