سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 50

سیاسی تصادم میں غریب کی حالت زار !

سیاسی تصادم میں غریب کی حالت زار !

اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کے بعد سیاسی تصادم اور کشیدگی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس سے مجموعی طور پر سیاسی اور جمہوری عمل کیلئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں،یہ سیاسی قیادت کے تدبر کی آزمائش کا وقت ہے،لیکن اس آزمائش میں دونوں ہی پورے اُترتے نظر نہیں آتے ہیں ،حکومت اور اپوزیشن اپنی کا میابی کیلئے ہر جائزوناجائز حربہ استعمال کرنے میں لگے ہیں ،

تحریک عد اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے اور تحریک کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن نے احتجاج گلی محلوں تک لے جانے کا اعلان کردیاہے ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قیادت ایک آئینی، جمہوری اور سیاسی عمل کو تصادم و تشدد کی طرف لے جانے کے اشارے دے رہے ہیں، اس کا سارا خمیازہ غریب عوام کو ہی بھگتناپڑے گا۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جا رہے ہیں اور وہ دونوں ہی ایسے بیانیے میں اْلجھے ہوئے ہیںکہ جو کسی نہ کسی طرح سے غیر سیاسی قوتوں کے مفادات کو پوراکرنے کا کام کرتا ہے،حکومت اور اپوزیشن کا اب تک کا کوئی ایسا بیانیہ نہیں ہے کہ جس سے پتہ چلتا ہو کہ ان کے اختلافات قومی اور عوامی ایشوز پر ہیں، حکومت اور اپوزیشن اپنے مفادات کے حصول کی جنگ میں نام عوام کا ستعمال کررہے ہیں ،اس تصادم کا نتیجہ جو بھی نکلے ،پرانی سیاست کا تسلسل ہی ہوگا، جبکہ پاکستان کے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی نہ آئندہ آنے والی ہے ۔
تحریک انصاف جب سے برسراقتدار آئی ہے ،اپوزیشن کا ایک ہی ایجنڈا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کوہر حال میں چلتا کیا جائے، اپوزیشن قیادت نئے انتخابات سے زیادہ وزیر اعظم ہٹانے کی حامی دکھائی دیتی ہے ،تاہم یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا کہ اس ایجنڈے کے پیچھے در اصل کون کار فرما تھا ،کیو نکہ حکومت کی کارکردگی پر اپوزیشن سے زیادہ کہیں اور بھی سوالات اَٹھائے جا رہے ہیںاور جہاں سوالات اُٹھ رہے ہیں،

وہیں پر سب کے آنے جانے کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہ کبھی نیو ٹرل نہیں ہوتے ہیں ،وہ کبھی براہ راست اور کبھی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ رہتے ہیں، اپوزیشن پہلے مختلف اشاروں پر جمہوریت کی بحالی کے نام پرتحریک چلاتی رہی ہے اوراس بار تحریک عدم اعتماد کے نام پر حکومت گرانے میں اْلجھی ہوئی ہے۔
در حقیقت جمہوریت‘ جمہور کا حق اقتدار تسلیم کرنے کا نام ہے، اگر ایک منتخب حکومت کوکسی جوڑ توڑ‘ میڈیا مہم اور ناجائزحربوں سے اقتدار سے محروم کر نے کی کوشش کی جائے گی تو ملک میں انتشار جنم لیتا ہے،اس انتشار کو قابو کرنے کی صلاحیت کمزور سیاسی نظام م نہیں ہوتی تو پھر غیر جمہوری قوتیں آگے بڑھتی ہیں،اس لیے اپوزیشن اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسا غیر جمہوری قدم نہ اٹھائے

کہ اس کے اقتدار میں آنے پر اس کے خلاف بھی بطور بدلہ استعمال ہو سکے ،حکومت کا کام بھی حالات میں تنائو اور تلخی کم کرنا ،ناکہ انتشار بڑھانا ہے ، اس لئے حکومتی اراکین کو بھی سیاسی بحران کے وقت تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے،اگر حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں سیاسی درجہ حرارت بتدریج بڑھتا رہا توکوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔
پا کستان کی سیاسی تاریخ حادثات سے بڑھی پڑی ہے، اس وقت ملک وقوم کسی نئے حادثے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں، ایک طرف ملک خارجی اور داخلی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے تودوسری جانب عوام سیاست سے مایوس ہو رہے ہیں،کیو نکہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہحزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین کھینچا تانی حصول اقتدار کیلئے ہورہی ہے ،لیکن اس بات کادونوں فریقوں کو خیال رکھنا چاہیے

کہ ملک وقوم کا کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے ،تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے میں دونوں فریق عوام اور ملک کی فلاح و بہبود کا نام لے کر ایسا بہت کچھ کررہے ہیں کہ جس کے باعث ملکی مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھنے لگے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ توجہ کا مرکز ملکی وقومی مسائل ہو نے چائیں تھے ،لیکن سیاسی رسہ کشی میںقومی معاملات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ حالات مزیدخراب ہو جائیں، تحریکِ عدم اعتماد جلد از جلد نمٹا کر عوام کے حقیقی مسائل کی طرف رخ کرنا چاہیے،

حکومت اور پوزیشن قیادت کو اہم قومی اور عوامی ایشوز پر مذاکرات کا ایجنڈا مرتب کر کے زیر بحث لانا چاہئے اور اگر کوئی ان مذاکرات پر آمادہ نہیں تو اپنا سیاسی بیانیہ ان قومی اور عوامی ایشوز تک وسیع کرنا چاہئے اور عوام کو سیاسی تصادم کی جانب گامزن کرنے کی بجائے ایک بڑے قومی ایجنڈے پر متحرک کرنا چاہئے

،کیو نکہ ایک عام پا کستانی کا مسئلہ حکومت گرانہ نہیں ، بڑھتی مہنگائی اورغربت سے نجات حاصل کرنا ہے ،اس آئے روز کی بڑھتی مہنگائی اور غربت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں