سیاست کی بند گلی میں خطرے کی گھنٹی !
تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریک عدم اعتماد نے سیاسی حالات کو عجیب رخ پر ڈال دیا ہے، اس تحریک کو کامیاب اور ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا جارہاہے ہیں،کہیں دھمکیاں دی جارہی ہیںتوکہیں دھونس سے کام چلایا جارہا ہے اور کہیں گورنر راج نافذ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں،اپوزیشن ایک طرف حکومتی اتحادیوں کو رام کرنے میں لگے
ہیںتو دوسری جانب حکومتی ارکان پارلیمان سے جوڑ توڑ جاری ہے ،جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے سپیکر پیر کے روز عدم اعتماد کی قرادا پیش نہیں کرتے تو اپوزیشن ایوان میں دھرنا دیے گی اور پھردیکھتے ہیں کہ او آئی سی کا نفرنس کیسے ہوتی ہے ،یہ بند گلی میں داخل ہوتی ملکی سیاست خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے۔یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن کی دل چسپی کا مرکز ملک وقومی مفاد کی بجائے حصول اقتدار ہے ،اس لیے او آئی سی اجلاس میں روکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ،
مسلم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں پورے عالم اسلام کی دل چسپی ہے اور اس اہم اجلاس پر دنیا کی نظریں لگی ہیں کہ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ مل بیٹھ کر کیا سوچ اپناتے اور کیا فیصلے کرتے ہیں ،یہ کا نفرنس پا کستان کے عالمی تشخص اورساکھ کا بھی معاملہ ہے ،ایک طرف سیاسی معاملہ ہے تو دوسری طرف ریاست کے وقار کا سوال ہے ،اس سورت حال میں کسی سیاسی رہنماکو زیب نہیں دیتا
کہ اس معاملے پر غیر ذمہ دارانہ لب ولہجہ اختیار کرے یا اس معاملے کو دبائو بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے ،مگر سیاست میں ذاتی مفادکے حصول میں ملکی مفادات بلا ہچکچاہٹ نظر انداز کیے جارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری پہلے سیاسی رہنما ہیں کہ جنہوں نے او آئی سی کانفرنس پر جذباقی پن کا مظاہرہ کیا ہے ،لیکن یہ کا نفرنس وزیر اعظم کی کا نفرنس نہیں ،پا کستان کی کا نفرنس ہے ،اس موقع پر ضروری تھا کہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تاثر پید ا نہ ہونے دیا جاتا کہ پا کستان میں جاری سیاسی کشیدگی او آئی سی کانفرنس پر کسی طور اثر انداز ہو گی ،ہماری سیاسی قیادت نے ملکی مفاد میں اتنا بھی نہیں کیا
کہ اس کا نفرنس کو مسلم دنیاکا ایونٹ سمجھ کر ہی احترام کر لیا جائے ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام سیاسی جماعتیں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کرتیں کہ او آئی سی کا نفرنس شا یان شان طریقے سے منعقد ہو گی ،مگر ہماری سیاسی قیادت کو شر مندگی اُٹھانے کے بعد ہی بات سمجھ میں آتی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس سے قبل کسی عالمی اکٹھ کے دوران ایسے حالات پیدا نہیں ہو ئے ہیں ،پا کستان کو عالمی سطح پر میزبانی کے آداب اور عالمی تقاضوں کو سمجھنے والے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،اس لیے کوشش کرنی چاہئے کہ سیاسی اعتبار سے مشکل حالات کے باوجود ملک کے تشخص و وقار پر حرف نہ آئے
،سیاسی طوفان جلد بدیر تھم ہی جائے گا اور سیاسی اُڑتی گرد بھی بیٹھ جائے گی ،لیکن اگر پا کستان کا ایک بار مسلم دنیا کے وزرائے خارجہ پر برُا تاثر قائم ہو گیا تو اس کے اثرات تا دیر تک دور نہیں کیے جاسکیں گے ،اس لیے اپنے بیانات میں ایادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کی حریف سیاسی جماعتیںکل کی حلیف بھی بن سکتی ہیں ،لیکن ملک کے تشخص پر پڑنے والے منفی اثرات کو آسانی سے تبدیل نہیں کیا جاسکے گا ،اس کا ندازہ کچھ دیر بعد ہی سہی اپوزیشن قیادت کو ہو گیا
یا کروانے والوں نے کروادیا ہے ،نئے علامیہ کے مطابق پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مسلم دنیا کے وزیر خارجہ کی آمد کے موقع پر پورا پاکستان انہیں خوش آمدید کہتا ہے، ان کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران مہمان نوازی کی روایتی چاشنی، احترام، تقاضوں کے مطابق خوش گوار ماحول استوار کرنے میں اپنا کردار یقینی بنائیں گے۔
اپوزیشن قیادت کی جانب سے اچھی بات ہے کہ او آئی سی کا نفرنس پر اپنے بیان پر نظر ثانی کی ہے، سیاسی جماعتوں کو تصادم کی راہ سے گریز کرنا چاہئے، سیاست دانوں میں تصادم سے نقصان ملک وجمہوریت ہی کا ہوتا ہے ،ملک میں جن معاملات کا تعلق آئین اور قانون سے ہے ،انہیں سڑکوں پر طے کرنے کی کوشش انتشار اور انارکی کا سبب بن سکتی ہے، حکومت پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے،تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آئینی طریقے سے طے کیا جائے اور نتیجہ جو بھی ہو دونوں فریق اْسے کھلے دِل سے تسلیم کریںاورملک کو خانہ جنگی کی لپیٹ میں جانے سے روکیں ، حالات کو اس نہج پر لے کر نہ جائیں کہ کسی سے بھی سنبھالے نہ جا سکیں ، ملکی سیاست جس بند گلی میں داخل ہو چکی ہے، اس کے نتائج ملک و قوم کو ہی بھگتنا پڑیں گے