سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 34

سیاسی تصادم سے گریز کا راستہ

سیاسی تصادم سے گریز کا راستہ

تحریر :شاہد ندیم احمد

تحریک عدم اعتماد کیلئے اسمبلی اجلاس کے انعقاد کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے ،ملک کے سیاسی حالات تیزی سے بگاڑ کی جانب گامزن ہیں اور آئندہ دنوں میں انارکی اور افراتفری پھیلنے کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں، اپوزیشن اور حکومت کے مابین سیاسی

و معاشی حالات کی درستی کیلئے قومی ایجنڈے کی تشکیل کی بابت مذاکرات کرانے کیلئے مقتدر قوتوںکی جانب سے تعاون و مدد فراہم کیے جانے کی باتیں سنائی دے رہی ہیں، اگر دونوں فریقین کے مقتدر قوتوں کی سر پرستی میں مذاکرات ہو جاتے ہیں تو آپس میں مل بیٹھ کر ملکی سیاسی مستقبل کا لائحہ عمل بھی طے کیا جاسکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے توملکی حالات اس نہج تک پہنچانے میں اپوزیشن سے زیادہ حکومتی کردار رہا ہے،ساڑھے تین سال کے دوران وزیراعظم نے ایک مرتبہ بھی اپوزیشن سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے،وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کرپٹ قیادت کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے ،یہ کسی طور جمہوری رویہ نہیں ہے،

جمہوری نظام میںتما م سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جاتا ہے، جبکہ منفی سیاست کو محور بنانے سے دیگرملکی معاملات نظرانداز ہوتے ہیں،اس کے نتیجہ میں ہی معاشی ابتری کی صورت میں سامنے آیا ہے ، اس وقت سیاسی فضا میں موجود کشیدگی کی شدت کوکم کرنے کیلئے حکومت و اپوزیشن رہنمائوں کو سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ سیاسی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی کی طرف پیش قدمی جاری رہے۔
حکومت اور اپوزیشن قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ زبانی کلامی افہام و تفہیم اور مشاورت کی باتیںتو بہت کی جاتی ہیں ،مگر عملی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب کچھ دائو پر لگادیا جاتا ہے ،اس وقت بھی ایساہی کوکچھ ہورہا ہے

،حکومت اور اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کو لے کر تمام حدود پار کررہے ہیں،دونوں جانب سے اپنی کامیابی کے دعوئے کیے جارہے ہیں، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے اتحادی حکومت کے ساتھ نہیں رہے ہیں،ہمارے نمبر پورے ہیں اور ہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے

سلسلے میں پوری طرح مطمئن ہیں، اسی طرح آصف علی زرداری اور شہباز شریف بھی ارکان اسمبلی سے مسلسل رابطوں میں ہیںاور ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم چونکہ ارکان ِ اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس لئے اپنے منصب کے حقدار نہیں رہے ہیں، دوسری طرف حکومت ابھی تک پوری طرح پر اُمید دکھائی دیتی ہے اور یقین ظاہر کر رہی ہے کہ وزیراعظم کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگی۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش اعصاب شکن ہے

، ایک آئینی تحریک جنگی ماحول میں تبدیل ہو چکی ہے اور فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں، اس سیاسی لڑائی کا ایک حصہ عدالت تک پہنچ گیا ہے اور اس حوالے سے نگاہیں منتظر ہیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے، تاہم ر شیخ رشید کے فرمان کی روشنی میں چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ اپوزیشن صرف ایک فون پر ہی لیٹ گئی

اور اپنا احتجاج و دھرنا موخر کردیا ہے، لیکن ، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ابھی تک کوئی ایسی خبر نہیں ہے، منحرف واپس آنے کو تیار نہیں اور اتحادی اڑان بھرنے کا تاثر دے رہے ہیں، جبکہ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو آخری دن سر پرائز ملے گا۔حکومت اور اپوزیشن قیادت کے تمام تر دعوؤں کی حقیقت چند ہی روز میں واضح ہو جائے گی، تاہم ملک اور قوم کا بہترین مفاد اسی میں ہے

کہ طرفین اپنے اپنے اہداف کے حصول کے لئے قانونی‘ جمہوری اور آئینی طریقہ کار اختیار کریں۔ اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے کوئی ناجائز طریقہ یا حربہ استعمال نہ کیا جائے، جلسوں کے انعقاد سے تصادم کی راہ ہموار ہوگی اور ملک انتشار اور بدامنی کا شکار ہوگا۔ اس لئے اس موقع پر جب کہ تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش ہو چکی ہے ، حکومت اور اپوزیشن کی قیادتیں کارکنوں کے ذریعے شو آف پاور سے باز رہنا چاہئے

اور اپنے اپنے کارڈز اسمبلی میں کھیلیں اور ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ تمام مراحل پرامن طریقے سے مکمل ہوجائیں،اس مرحلے پرکوشش کی جائے کہ کسی بھی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہونے پائے اور جمہوریت کی گاڑی کسی رکاوٹ کے بغیر چلتی رہے،جمہوریت کامستقبل جمہوری قیادت کے اپنے ہاتھ میں ہے

کہ اشاروں پر چل کر اسے آمریت کی جانب دھکیلتے ہیں یا اپنی فہم و فراست سے منجد ھار سے باہر نکالتے ہیں، سیاسی تصادم سے گریز کا راستہ اختیار کرنے میں ہی جمہوریت کی بھلائی ہے، اگر سیاسی محاذ آرائی میں ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اُترگئی تو فریقین کے ہاتھ پچھتائوں کے سوا کچھ نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں