51

تھوڑا سا جہاں اور

تھوڑا سا جہاں اور

رنگِ نوا
کالم:نوید ملک

میں روایتی انداز میں تاثرات کا آغاز نہیں کرتا کہ سفر نامہ کسے کہتے ہیں اور ڈاکٹر مقصودہ حسین نے سفر نامہ نگاری میں فنی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کیسا فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے اس سفر نامے سے قبل بھی آپ کی کچھ تصانیف منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ نثری حوالے سے آپ کے قلم نے کئی

تصورات قرطاس پر بکھیرے ہیں۔”تھوڑا سا جہاں اور” میرے سامنے ہے اور ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد پھر سے خواہش جا گ اٹھی ہے کہ تھوڑا سا اور پڑھ لوں۔پڑھنے کے ساتھ ساتھ آخر ی صفحات میں سجی تصاویر بھی دیکھ لوں تاکہ انھوں نے منظر نگاری سے جو خوشگوار ماحول پیدا کیا ہے اس سے پوری طرح حظ اٹھا سکوں۔
آپ سے میری ملاقات رمیل ہاؤس آف پبلیکیشنز میں اتفاقیہ طور پر ہوئی۔اول اول مجھے پتہ چلا کہ آپ سفرنامہ نگار ہیں پھر شاعرہ ہونے کا راز بھی چند لمحوں میں فاش ہوا۔سفر نامہ نگار کائنات کا مبصر ہوتا ہے۔اس کا وجود لمحات کے بہتے ہوئے دریا کی نذر نہیں ہو جاتا بلکہ وہ لمحات پر تجربات پرو کر ایسی تسبیح ایجاد کرتا ہے

جسے کوئی بھی ہاتھوں میں لے کر نئیا ور پرانے زمانے دریافت کر سکتا ہے۔سفر نامے کے نام سے ہی ان کے جنون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے”تھوڑا سا جہاں اور”۔اس نام میں ایک تشنگی محسوس ہوتی ہے جو مزید کچھ دیکھنے پر ابھارتی ہے۔شعر ہے:بڑھتے ہی چلے جائیں قدم میرے جنوں میں
مشکل ہے مرا سارا سفر دیکھ رہا ہوں

انھیں کئی دشواریوں کا سامنا بھی ہوا مگر قدم کہیں بھی ڈگمگائے نہیں۔سفر نامہ نگار کی آنکھیں اور دل دونوں زندہ ہونے چاہییں ورنہ اُس ذائقے سے محروم ہو جاتا ہے جو خالقِ کائنات نے ہر منظر کو بخشا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ آغاز ہی سے حالات و واقعات بیان نہیں کرتیں بلکہ قاری کیذہن کو اپنے بچپن او ر اپنی زندگی میں جذب کر کے لفظوں کے ساتھ دل بڑھانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔مزے کی بات دیکھیں

کہ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کا تذکرہ بھی اس سفر نامے میں ملتا ہے جس سے ان کی زندہ دلی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہم لوگ روزانہ کئی میلوں کا سفر کرتے ہیں مگر دنیا کو کسی اور نظر سے نہیں دیکھتے۔ابتدائی صفحات کا ماحول متصوفانہ ہے یعنی انسان اور کائنات کے درمیان فاصلہ محسوس نہیں ہوتا

۔دونوں ایک ہی وجود کے دو حصے نظر آتے ہیں۔سفرنامے میں آپ کی جملہ سازی کمال کی ہے اور بعض اوقات ایک ہی جملے میں دو تہذیوں کے نقوش ثبت کر دیتی ہیں جیسے مصر کے ایک بازار میں مفلوک الحال لوگوں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کا جملہ کہتی ہیں:
”غربت ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے”
آپ نے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا اور کئی دلچسپ حقائق ہمارے سامنے رکھے۔مثال کے طور پر امام شافعی ؒ کے مزار اور گلیوں کا ذکر کرتے ہوئے جس کرب کا اظہار دھیمے لہجے میں کیا ہے، امتِ مسلمہ کے لیے کئی سوال ابھارتا ہے۔آپ نے مصر کی تاریخ کا اجمالی جائزہ بھی پیش کیا مگر حواسِ خمسہ بروئے کار لاتے ہوئے

جملہ سازی اس طرح کی کہ کہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔کئی مقامات پر دلچسپ اور مزیدار اظہاریے سفر نامے کو پر لطف بناتے ہیں۔آپ نے چونکہ کئی اور ممالک کے اسفار بھی کیے ہیں اس لیے تہذیبوں کا تقابلی جائزہ عمدگی سے پیش کیا ہے۔میں اس سفر نامے کی اشاعت پر آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں