84

درس گاہیں یا قتل گاہیں

درس گاہیں یا قتل گاہیں

از کومل شہزادی،سیالکوٙٹ

کیسے کیسے لوگ کھا گیا آسماں

پچھلے سال سے لے کر اس سال تک بہت سی ایسی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں جن سے بہت سے قصے جڑے تھے اور بہت سی خدمات سرانجام دینا باقی تھیں لیکن عمر نے وفا نہیں نبھائی۔یہ بات تو ایک طرف درس گاہوں کی بات کی جائے تو آج کل جتنی سیاست ان اداروں میں چلتی ہے اور یہاں تک کہ کسی کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہے

قاضی عابد کی موت ایک کربناک واقعہ ہے جو اچانک دل کا بند ہونا جس سےحساس لوگوں کا یہ ہی مسئلہ ہے کہ وہ کسی بات کو لے کر خود کو اتنی اذیت دے لیتے ہیں کہ دل کا دھڑکنا تک اُن کا بند ہوجاتا ہے۔
ظاہری دیکھنے والوں کو تو یہ قدرتی موت ہی لگتی ہے۔لیکن بہت سی اموات ہماری درس گاہوں کا ہی نتیجا ہوتا ہےتعلیمی اداروں میں کیسی کیسی المناک صورت حال ہے یہ اندر کام کرنے والا ہی واقف ہوتا ہے باہر کے لوگ اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔حساس لوگ اپنی عزت ونفس مجروح ہوتے برداشت نہ کرسکیں

تو وہ ایسے ماحول میں گزارہ دو ہی وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں ایک فکر معاش دوسرا کسی مجبوری کے تحت کیونکہ بہت سے لوگ ایسی ملازمت کو خیر باد کہہ دیتے ہیں جدھر وہ حد درجے ڈپریشن کا شکار ہوتے جائیں۔ذہنی اذیت برداشت کون کب تک کرسکتا ہے۔معلم کا رتبہ بڑا ہے لیکن درس گاہوں میں بڑا وہی ہے جس کی جتنی بڑی سفارش ہے۔

جن بلاؤں کے بارے سنتے تھے میر

انہیں اس عالم روزگار میں دیکھا

ان ہلاکتوں کے بعد جو طوفان ان اداروں میں برپا ہوا ہے یہ طوفان ایک طغیانی کا باعث بنے گا۔جامعات کی انتظامیہ اور ان کی مقتدر اعلیٰ کے کردار اور سوچ میں موجود خودسری اور پدرسری پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا کردار ماضی جیسا نہیں رہا۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے تشخص میں ہے لیکن ہم اپنے ہی گھر میں

اجنبی بننے والے خود کو بھی کھورہے ہیں اور اپنے گھر (پاکستان) کو بھی۔
لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے لیکن مزید لکھنے کی ہمت نہیں کہ یہ جامعات کیسے کیسے لوگ کھا گئیں۔اسی طرح پچھلے دنوں ایک معتبر شخصیت ڈاکٹر قاضی عابد صاحب کی اچانک موت نے بہت رنج میں مبتلا کیا کہ کیسے ایک اچھے خاصے حساس انسان کو اردگرد کا ماحول اور رویے نے کھانے میں وقت نہیں لگایا۔
قابل احترام قاضی عابد کی وفات میرے لیے بہت حیرت اور رنج کی کیفیت تھی۔اچانک سوشل میڈیا کو کھولا تو ایسی خبریں سامنے آئیں اور دل قبول کرنے کو تیار نہیں تھاکہ یہ خبر سچ ہے۔

چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوۓ

کچھ زہر ہوتا ہے جو کسی انسان کو آہستہ آہستہ دیا جاتا ہے مطلب جس کو ہم ڈپریشن اور سٹریس بول سکتے ۔موجودہ دور میں حساس لوگوں کو انہیں میں مبتلا کرکے قتل کیا جاتا ہے جسے خودکشی یا قدرتی موت کا نام دے دیا جاتا ہے۔بہت سے لوگ جامعات کے اندر کے ماحول سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن اُن کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تو وہ اُسی گھٹن میں رہتے ہیں۔

اے زمانے بتا کیوں ہوئی خودکشی

ناجانے ایسی کتنی آوازیں جو جامعات میں ایسے ہی بند کروادی جاتی ہیں۔آجکل تقریبا تمام ہی جامعات میں سیاست سٹاف کے درمیان عروج پر ہوتی ہے۔جو ایسے ماحول کے خلاف مزاحمت کرے اُس سے پھر سارا قبیلہ دشمنی پر اترآتا ہے۔کچھ لوگ ایسے ماحول میں ملازمت اس وجہ سے کرتے کہ اُن کی ذریعہ آمدنی اُسی سے وابستہ ہوتی لیکن جن افراد کو مالی پریشانی نہیں ہوتی وہ ایسے ماحول پر مزاحمت کرکے

اس کو خیرباد کردیتے ہیں۔سیاسی ماحول جامعات میں پنجے گاڑھ چکا ہے ناجانے قاضی عابد صاحب کی طرح کتنی عظیم شخصیت کو نگل گئی اور کتنے اس کا شکار ہوں گے۔بہت دکھ کی بات ہے لیکن حقیقت بھی ہے۔لسانی مسلکی فقہی سیاسی سمیت دیگر تعصبات نے معاشرے کو چیر پھاڑ کے رکھ دیا ھے۔رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر جاری ہزیان اور ہیجان کی دن رات پرورش نے پوری کردی ھے۔ہر جگہ سیاست کا بازار گرم ہے۔دیکھنے میں شرافت کا لبادہ اوڑھے اندر سے انتہائی غلیظ ترین سوچ ہے۔افسوسناک صورتحال ہے
بحث و مباحثہ ہی زندگی کا جوہر ہے جو نئی جہتیں تخلیق اور تراشتا ہے لیکن رائے میں اختلاف کا مطلب ذاتی اذیت اور دشمنی نہیں ہے۔ زندگی اور معاشرہ کوئی جامد واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی رفتار سے ہلتا ​​رہتا ہے، معاشرے کو ہم آہنگ کرنے کے لیے خیالات، تشریحات وقتاً فوقتاً مختلف ہوتی رہتی ہیں۔ اس زہریلے رجحان کی درست نشاندہی کی اشد ضرورت ہے اور اس کی روک تھام اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

ہم کو ورثے میں ملیں صدیوں پرانی نفرتیں
اگلی نسلوں کے لیے تو پیار ہونا چاہیے

(فضل احمد خُسرو)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں