47

سیاسی بحران کے حل کی جانب قدم!

سیاسی بحران کے حل کی جانب قدم!

تحریر :شاہد ندیم احمد

ملکی تاریخ میں تین اپرل کو ایک ایسا بحران آیا کہ جس کی کسی کو اْمید نہیں تھی، اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ،اس تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر نے منتخب عوامی حکومت کے خلاف بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے ایک رولنگ کے ذریعے مسترد کر دیا،اس اقدام کا عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کا لعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کردی

اور نو اپرل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیے دیا ،عدالت عظمیٰ کے حکم پرمنعقد اجلاس میں عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو رخصت کردیا گیا ،عمران خان تو چلے گئے ،لیکن ان کی جگہ جو بار ہاآزمائے ہوئے آرہے ہیں یا لائے جارہے ہیں،یہ بھان متی کا کنبہ کب تک اکٹھے رہیںگے اور ملک وعوام کی زندگی میں کو نسی تبدیلی لا ئیں گے ،کچھ نہیں کہا جاسکتا ،البتہ جس ایجنڈے پرآرہے ہیں ، انہیںاُسے ضرور پورا کرنا پڑے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، یہ ملک ہے تو اس کے تمام تر ادارے ہیں ،اگر خدانخواستہ ملک نہیںتو نہ ہم ہوں گے نہ جمہوریت بچے گی نہ ہی معزز ادارے محفوظ رہیں گے، و زیر اعظم کی جانب سے قومی سلامتی کے اداروں کی مکمل تصدیق کے ساتھ ایک دھمکی آمیز خط دکھایا گیا

کہ جس میں پاکستان کی سیاست میں ایک مذموم سازش کے تحت ایک منتخب حکومت کا تختہ اْلٹنے کی سازش کی گئی تھی ، وزیر اعظم کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو دھمکی آمیز خط پر اعتماد میں لینے کی پیشکش کی گئی، مگر افسوس عدالت عظمیٰ کی جانب سے پیشکش پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ، اگر عدالت عظمیٰ وزیر اعظم کی پیشکش پر نوٹس لے لیتی تو شاید ازخود نوٹس کی ضروت پیش آتی نہ سیاسی حالات مزید انتشار کی جانب گامزن ہوتے ،حکومت کی تبدیلی سے سمجھا جارہا ہے کہ سیاسی حالات بہتر ہو جائیں گے

،جبکہ حالات مزید سیاسی انتشار کی جانب بڑھتے جارہے ہیں۔،اس سیاسی انتشار کا واحد حل عام انتخابات کا انعقاد تھا ،مگر متحدہ اپوزیشن کا مقصد انتشار کا خاتمہ نہیں ،حصول اقتدار ہے، ملک ایک بڑے سیاسی بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر اس بات سے تمام سیاسی جماعتوں کو کوئی سروکار نہیں ،متحدہ اپوزیشن کی جانب سے آئین توڑے جانے کا ہنگامہ برپا ہے، عوام ان سے سوال کر تے ہیں

کہ جس آئین کا اپنے مفادات میں مکمل دفاع کیا جارہا ہے ، کیا پچھلے چالیس سال سے ا س آئین کی دھجیاں نہیں اْڑائی جارہی ہیں، عوام اپنے قیمتی ووٹ سے جنہیں ایوانوں تک پہنچاتی ہے اوروہی منتخب نمائندے آئین کے تحت حلف اْٹھا کر ملک و قوم سے وفاداری ملک و قوم کی خدمت کاعہد کرتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد ہی اسی آئینی حلف کو اپنے اقتدار کی کرسی تلے روند ڈالتے ہیں،اْس وقت ان

سب کومقدس آئین کا درد کیوں نہیں ہوتا ہے ،اس ملک وقوم کی بد بختی رہی ہے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی حکمرانوں کے ضمیر سو جاتے ہیںاور انہیں دوبارہ جس کو جاگا نے کیلئے عوام کو اگلے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت ملک سیاسی،معاشی و آئینی بحران کی زد میں ہے، یہ کوئی نیک علامت نہیں، اس وقت ملک کا سیاسی منظر نامہ ضرورت سے زیادہ خراب ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تو عملدر آمد ہو گیا، مگر ساتھ ہی ملک کے دفاعی سلامتی کے ا داروں اور معزز عدالتوں کا فرض بنتاہے

کہ پاکستانی سیاست میں سیاسی ضمیر فروشوں، سیاسی خانہ بدوشوں وفادار اور غدار کی درست تشریح بھی کر دیے، تاکہ ایک حد مقر ر ہوجائے، ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں اور کوئی بغیر ٹھوس شواہد کے کسی کو اپنے سیاسی انتقام کے لیے غدار ہونے کا سر ٹیفکیٹ نہیں دے سکتا،لیکن اگر کوئی سازش ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات ضرورہو نی چاہئے، ملک میں سیاسی بحران ابھی تھما نہیں ہے،

اس کے آنے والے دنوں میں مزید شدید جھٹکے دیکھنے کو ملیں گے ،اس کا واحد سیاسی حل غیر جانبدار شفاف اندرونی بیرونی مداخلت سے پاک انتخابات ہیں۔اس بحران کا حل تمام سیاسی قیادت کے مل بیٹھنے اوربات چیت سے ممکن ہے، مگر اب فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتاہے ، تاہم سیاسی قیادت کو عام انتخابات کے انعقاد کی جانب ہی بڑھنا ہوگا ،تاکہ قوم ایک بار پھر اپنے قیمتی ووٹکے ذریعے

ایک حقیقی منتخب حکومت کا قیام عمل میں لاسکے ،یہ اندون اور بیرون ملک سے سلیکٹ حکومت عوام کو نئے سے پرانے پا کستان میں لانا چاہتی ہیں،مگر عوام دوبارہ پرانے پا کستان میں جانا نہیںچاہتے ہیں ،عوام اپنے ووٹ سے منتخب حکومت کے ساتھ ایک آزاد مستحکم پا کستان میں رہنے کے خواہاں ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں