اسلام کی عظیم فتوحات اور رمضان المبارک
فقط
احقر
محمد فاروق شاہ بندری
اسلام کی عظیم فتوحات اور رمضان المبارک
۔ نقاش نائطی
۔ +9665677707
سنہار جتنی زیادہ دفعہ سونے کے ٹکڑے کو آگ میں تپاتے ہوئے، ہتھوڑی کی ہلکی ہلکی مار سے جتنا اس پر عتاب ڈھاتا رہتا ہے، زیور اتنا ہی عمدہ بن کر تیار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے مسلمان اپنے رب کی جتنی آزمائش سے گزرے گا،اتنا ہی وہ قوی الایمان مومن بنے گا۔ اس لئے اپنی اولاد کو اپنے اسلاف کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں آئی تکالیف و غزوات و فتوحات اسلامیہ سے باخبر رکھنا چاہئیے
تاکہ ہم بھارتیہ مسلمانوں کی زندگی میں، خصوصا آج کے اس مسلم مخالف منافرتی پس منظر میں، اس سنگھی مودی، یوگی، شیوراج سنگھ، بومائی سرکارکی کھلی سرپرستی میں، یہ سنگھ بھگت جوان کسی بھی مذہبی تیوہار کے موقع پر،موٹر بائک ریالیاں مسلم علاقوں سے گزارتے ہوئے، مسلم نوجوانوں کے جذبات بھرکاتے اور کسی بھی بہانے پر تکرار کرتے ہوئے،منظم انداز فساد برہا کرتے، غریب مسلمانوں کی املاک تباہ و برباد کرتے، اوپر سے علاقے کی بی جے پی حکومت، مسلم نوجوانوں ہی کو گرفتار کر، ان پر آذیتیں ڈھاتے اسٹیٹ دہشت گردی کے شکار ہم مسلمانون کو بناتے ہوئے،
بھیگی بللی بن ان کے ظلم و استنبداد سہتے، دوسرے درجے کے شہری بن جینے مجبور کرتے پس منظر میں، مستقبل میں ہم پر آنے والی کسی بھی آزمائش کے لئے ہمیں ذہنی طور ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بعد آزادی ھند، پینسٹھ سالہ کانگریس راج میں، ہم پر آنے والے، ایسے واقعات و حالات کی فکر سے ماورا صرف اپنی اور اپنی آل کی فکر میں جیتے آئے ہم بھارتیہ مسلمانوں کو،اس سنگھی مودی یوگی کی منافرت آمیز پالیسز سے ہمیں وقت سے پہلے باخبر رہتے، اپنی دفاعی تیاری کرنے کا موقع دینے کے لئے۔ ان سنگھی حکمرانوں کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہئیے
دین اسلام پرعمل پیرائی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں بھرے بستر پر سونے جیسا عمل ہوتی ہے کہ ںہ کروٹ بدل سکتے ہیں نہ چین کی نیند سو سکتے ہیں۔ عالم اسلام کی پہلی غزوہ بدر یا جنگ بدر اس کا عملی نمونہ ہے۔ آج کے ہم مسلمان رمضان المبارک کے کچھ گھنٹوں کی، وہ بھی عموما ڈکار کے سگنل سے، اندر اور نہ ٹھونسنے کے حکم بدن ڈکار تک، سیر ہوکر کھائے، دن ڈھلے تک ایر کنڈیشن آفیسز و گھروں میں بھوک و پیاس سے گزارتے ہوئے،
کئی گھنٹوں کی مشقت سے تیار کی جانے والے قسم ہا قسم مغلائی کھانوں سے سجے دستر خوان پر شب خون مارنے کے بعد، بھاری تن من سے، کچھ رکعات تراویح پڑھتے ہوئے، سحری کے لئے تازہ دم ہونے والے ہم مسلمین کو، ہمارے خاتم الانبیاء سرورکونین محمد مصطفی ﷺ ،انکے رفقاء صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے، اسلامی ھجری کیلنڈر کے دوسرے ہی سال۔بچے بوڑھے جوان تربیت یافتہ، غیر تربیت یافتہ 313 نفری فوج کے ساتھ اپنے مستقر شہر مدینہ سے مکہ کے راستے پر 118 کلومیٹر طویل پہاڑی
راستہ پیدل طہ کرتے ہوئے، مقام بدر تک پیدل پہنچنے اور اس تپتے صحرائی گرمی کے پس منظر میں دشمن اسلام کے تربیت یافتہ ان سے تین گنا زیادہ ایک ہزارجنگجو افواج سے، اسلام کی بقاء کی جنگ لڑنے کے واقعات و حالات کی آگہی بخوبی ہمیں ہوگی۔ غروب آفتاب سے کافی پہلے نت نئے اقسام کے کھانوں کے دستر خان پر ٹوٹ پڑنے سے پہلے ،ذرا اس حرب بدر کی رزمگاہ ہی پر ایک اچٹتی تخیلاتی نظر دوڑائیں۔ معرکہ حرب بدر سجا ہوا ہے ہر طرف تلواروں کی جھنکار کے درمیان، کاری زخم سے مرنے والے کسی کافر کی چیخ و پکار تو کسی شہید ہوتے صحابی رسول ﷺ کے کراہنے کی سرگوشیاں،
دونوں طرف ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہوئے بھی، خط ایمان میں منقسم ،ایک دوسرے کو مارنے و ختم کرنے کی پہل کرتے پس منظر میں،ہر کسی کی نظر ڈھلتے سورج کو گاہے بگاہے تکے جارہی ہوتی تھی۔غروب آفتاب کا انتظار روزہ دار مسلمانوں کو آج والے مرغن غذاوں کے دسترخوان پر یلغار کرنے کے لئے انتظار کئے جیسا نہیں، بلکہ کفار مسلمین طرفین کو غروب آفتاب کا، بے چینی سے انتظار ہوتا تھا۔
کیونکہ عصری علوم سے ماورا اس تمدنی ترقیات سے پچھڑے وقت میں بھی، اوصول جنگ کا پاس و لحاظ و آداب، حرب عرب کا وہ خیال رکھتے تھے ۔ غروب آفتاب کے ساتھ معرکہ دوسرے دن طلوع آفتاب تک کے لئے تھم جایا کرتا تھا۔ فریقین اپنے زخمیوں کی مرہم پٹی تو مرحومین کی تدفین کیا کرتے تھے۔
اور پھر دوسرے دن ایک دوسرے پر یلغار کی منصوبہ بندی اور تیاریاں ہوتی تھیں۔اور دوسرے دن کے لئے تازہ دم ہونے، شب کی تاریکیوں میں کچھ وقت آرام کیا جاتا تھا۔17 رمضان المبارک ھجری بمطابق 13 مارچ 624 عیسوی وہ مبارک دن تھا حرب و جنگ و جدال کے ماہر اپنے سے تین گنا زیادہ دشمن اسلام افواج کے مقابلہ، بچوں بوڑھوں پر مشتمل اپنی استعداد مطابق فوج آپﷺ لے تو آئے تھے اور پھر شب کی تارکیوں میں اللہ کے حضور روکر گڑ گڑاکر، اسلام کی بقاء کی مدد و نصرت کے کئے دعا مانگی تھی
۔آپﷺ چاہتے تو کفار مکہ کے یلغار کی خبر ملتے ہی، مدینہ کے تمام مسلمانوں کو مسجد نبوی میں جمع کر، نفل نماز و اذکار کی مجالیس منعقد کرتےہوئے، دین کے بقاء کی یہی دعا مانگ سکتے تھے اور یقینا مالک دو جہاں اس وقت بھی انکی دعا قبول کرتا لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے تا قیامت آنے والے ہم مسلمین کے لئے،وقت پڑنے پر اپنی کم مائگی کے لئے روتے بیٹھنے کے بجائے، اپنی استعداد مطابق اپنے دفاعی تیاری کرنے، اور دشمن اسلام سے لڑ کر اور مر کر، اپنی آل اولاد و دینی اقدار کی
حفاظت کی ترغیب دینے ہی کے لئے، ان ایام اپنی کم مائگی باوجود،جتنی ممکن ہوسکتی تھی تیاری کر 118 کلومیٹر کا تکلیف دہ پہاڑی راستہ طہ کرتے ہوئے، اپنے سے تین گنا وقت کی بہترین افواج سے مدافعتی جنگ لڑکر، ہم مسلمانوں کے عملی مثال پیش کی تھی۔ تاکہ آج بھارت پر جیسے آئے منافرتی حالات میں اپنی آل اولاد آور دیںی اقدار کے دفاع کے لئے دشمنان اسلام سے دو دوہاتھ کرنے کی ساری تیاری کرتے پائے جائیں اور وقت آنے پر دشمنان اسلام کے دانٹ کھٹے کرنے ہمہ وقت تیار رہیں
یہاں جنگ بدر سے منسلک ایک واقعہ بیان کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں جب اللہ کے رسول ﷺ معرکہ بدر دشمن اسلام کے خلاف لڑنے مدینہ کے مسلمانوں کو آواز دی تھی تو منافقین کو چھوڑ کر تقریبا” تمام مسلمان جنگ پر جانے تیار ہوگئے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ لڑنےمرنےتیارمسلمانوں کی صف پر جب ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال رہے تھے ایک کم عمر جوان کو دیکھ کر فرمایا کہ تم ابھی چھوٹے ہو، اس لئے مدینہ میں رک جاؤ کہ یہاں بھی کچھ رضاکاروں کی ضرورت ہے۔ اس کے پاس کھڑا آسی کا تقریبا ہم عمر بھائی
اس سے کچھ اونچا رہنے کی وجہ لڑنے جانے والی فوج کےلئے گویا چنا جاچکا تھا اس نے آپنے بھائی کی طرف آشارہ کرکے آپ ﷺ سے کہا حضور یہ میرا بھائی ہے ہم دونوں ہی ابوجہل کو مارنے کی نیت سے جنگ لڑنے تیار ہوکر گھر سے آئے ہیں۔ یہ ذرا عمر و قد میں مجھ سے بڑا ضرور ہے لیکن لڑائی میں، میں اسے آسانی سے چت کر سکتا ہوں اسلئے یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بھی ساتھ لے چلئے، آپ ﷺ نے اسکے
جوش و جذبے و ولولے کو دیکھ کر اسے بھی ساتھ آنے کی اجازت دے دی۔17رمضان المبارک رزمگاہ بدر سجی ہوئی ہے، ہر طرف تلواروں کی گھن گرج ہے یہ دونوں کم عمر نوجوان ،ہاتھوں میں تلوار لئے پیدل ہی میدان جنگ میں سالار دشمن افواج ابوجہل کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ ابوجہل کو پہچانتے تو نہ تھے اس لئے اپنے مسلم فوجیوں سے پوچھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ ان کے استفسار پر ایک نے اشارہ کر بتایا
کہ وہ آگے اس گھوڑے پر دشمن کا سردار اپنی افواج میں جوش و جذبہ بھڑکانے میں مصروف ہے۔ یہ جانتے پی وہ دونوں ابوجہل کی طرف دوڑے چلے، ابوجہل نے بھی ان دو لڑکوں کو اپنی طرف آتے دیکھا، لیکن اپنی بہادری اور فن حرب اپنی مہارت کے نشے میں وہ اپنی طرف بڑھتے دو بچوں کو دیکھنے لگا۔ وہ دونوں اس کے گھوڑے قریب آئے، ماقبل اسکے ابوجہل کچھ سوچ پاتا ایک نے اپنی تلوار سے ابوجہل کے
گھوڑے کے ایک پاؤں پر کاری وار کیا گھوڑا پیچے کی طرف ایسا جھکا کہ بے خیالی میں ابوجہل لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر گرگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا، دوسرے نوجوان نے بھرپور وار سے ابوجھل کو ایسا زخمی کیا کہ اس کے ساتھی موقع پر پہنچ اسے بچانے کی سعی ناتمام باوجود وہ جانبر نہ ہوسکا ۔ دشمن اسلام افواج کا سپہ سالار مرنے سے پہلے اس کی یہ بس تڑپ، تڑپ بن کر رہ گئی کہ وقت کا سپہ سالار سردار قریشی ابوجہل کسی مسلم فوجی سربراہ کے ہاتھوں مارا جاتا تو مرنے کا غم نہ ہوتا
اسے تو دو مسلم بچوں نے مارا تھا۔ یہی حسرت یا یاس کے ساتھ وہ جہنم واصل ہوگیا۔ مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا زائد حربی آلات سے لیس، تربیت یافتہ فوجیوں سے،اس بے جگری سے لڑا کہ جنگ بدر پہلے دن غروب آفتاب سے قبل دشمن کے فوجیوں کو میدان جنگ چھوڑ بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ اسلام کی پہلی جنگ، بچے بوزھوں پر مشتمل کمزور مسلم افواج، نہ صرف اللہ کی مدد و نصرت کے ساتھ، بلکہ اپنے جوش ایمانی و ولولہ سے لڑ کر جیت حاصل کی بلکہ دشمن کے 70 فوجیوں کو یرغمال قیدی بنانے میں کامیاب رہے۔
اس اعتبار سے یہ اسلام کی اولین غزوہ بدر آج کے ہم بھارتیہ مسلمانوں کے لئے ایک بہترین سبق آموز مثال مانند ہے کہ دشمن کی تعداد جتنی بھی زیادہ رہے اگر ہم مسلمان اپنے اللہ کی مدد و نصرت کے بھروسے،اہنی موت کے خوف سے بے خبر ہوکر، دشمنان اسلام پر ٹوٹ پڑیں تو یہ سنگھی دشمن اسلام،ہمارے سامنے بالکل ہی نہیں ٹک سکتے ہیں۔ اس ضمن میں مدھیہ پردیش کے کھرگون میں فسادات کے بعد اقلیتوں کی املاک کو مسمار کرنا فسطائیت پر مبنی کارروائی ہے
بھارت کے کسی بھی حصے علاقے صوبے کے ہم مسلمان اپنے اسلاف کے ان واقعات کو بار بار پڑھتے ہوئے اپنے اندر وہ ایمانی قوت و حرارت پیدا کرتے ہوئے، اپنی استعداد مطابق دشمن کو سبق سکھانے لائق مدافعتی تیاری کرتے ہوئے، اپنے اللہ پر توکل کرتے ہوئے، ہم پر حملہ آور ان سنگھی درندوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں کہ انہیں دوبارہ ہم مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی ہمت ہی نہ ہو۔ یقین مانئے ہمارے علاقے میں گھس آئے دشمنوں کو اپنے اور اپنی آل اولاد کی مدافعت میں مارنے کی، اس ملک کا قانون بھی ہمیں اجازت دیتا ہے
۔ یہ یاد رکھیں طاقت کے نشہ میں، کسی پر بھی چاہے وہ دشمن اسلام سنگھی درندے ہی کیوں نہ ہوں ان پر حملہ کرنے کی پہل ہمیں نہیں کرنی چاہئے اور اگر وہ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں تو انہیں چھوڑنا بھی نہیں چاہئیے۔ اپنی استطاعت بھر ہم کوشش کریں گے اور اپنی مدافعت میں، مرنےمارنے تیار پائے جائیں گے تو، یقینا رب دو جہاں دشمن پر ہماری فتح کے لئے ہماری تعداد و ہماری مدافعتی تیاری کا محتاج نہیں ہے
،وہ بے شک ہمارے دلوں کی کیفیات بہتر جانتا ہے اور یقینا وہ ہماری مدد و نصرت ضرور کریگا اور اپنے اپنی اولاد و قوم و ملت و دینی اقدار کی مدافعتی لڑائی میں، ہماری موت بھی واقع ہوجائے تو شہادت کی موت گلے لگاتےہوئے ہم سیدھے جنت کے مستحق قرار پائے جائیں گے۔ مرنا تو ایک دن ہے ہی ۔ بشمول ھندو برادران وطن کے ہر کوئی اس بات کا قائل ہے کہ کسی کی بھی موت نہ ایک لمحہ پہلے آسکتی ہے
اور نہ ایک لمحہ ہمیں فرصت مل سکتی ہے۔ اس لئے ان سنگھی درندوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی والی موت مرنے کے بجائے دفاعی لڑائی لڑتے ہوئے، دو چار ان دہشت گردوں کو مارتے ہوئے سرخرو ہوکر اپنے رب خائینات کے پاس جانے والوں میں ہم سبھی مسلمانوں کو بنائے۔ کلکتہ کے کرولی علاقے میں
سنگھی شرپسند رام نومی کی موقع پوری تیاری کے موٹر بائک ریلی کی شکل مسلم محلہ میں گھس کر فساد برپا کرنا چاہا تو وہاں کے چند نوجوانوں نے اپنی جان پر کھیل کے ان شرپسند سنگھیوں کی ایسی حالت بنادی کہ شرپسند سنگھی نوجوان اپنی جان بچانے اپنی کئی بائک تک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ و ما علینا الا البلاغ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں فسادات کے بعد اقلیتوں کی املاک کو مسمار کرنا فسطائیت پر مبنی کارروائی ہے: مولانا محمود اسد مدنی