آج کادور بڑا عجیب دورہے پاکستان کے ایک صوبہ سندھ میں قانون سازی کی گئی ہے کہ کسی نو عمرکی اسلام 46

ابن ِ عربی

ابن ِ عربی

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

ان کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ تھازہدو تقویٰ،حسب و نسب میں بھی ان کا خاندان ایک ممتاز اہمیت کا حامل تھاصوفی منش گھرانہ ان تمام نعمتوںکے باوجو وہ ہر وقت پریشان رہتا،ان کی اہلیہ بھی دن رات دعا کرتیں کہ یاباری تعالیٰ ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم نہ رکھنا50سال کا ہونے کے باوجود وہ نا امید نہیں تھے انہیں اللہ کی رحمت پر پورا یقین تھا کہ وہی مجیب الدعوات ہے ایک دن ان کی اہلیہ نے کہا

جناب آپ حضور غوث الاعظمؒ سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں وہ بھی آپ کے گھرانے کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں آپ ان کے پاس جائیں اوران سے درخواست کریں کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعاکریں یہ بات دل کو لگی وہ حضرت غوث اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد کی نعمت سے سرفرازفرمائے۔ حضرت شیخ محیؒ الدین عبدالقادر جیلانی نے اللہ کے حضور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئیے پھر کچھ دیر آنکھیں بند کرکے مراقبے میں چلے گئے

پھر مسکرا کر فرمایا اللہ کے فضل و رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے انشاء اللہ تمہارے گھر ایک خوب صورت فرزندپیدا ہوگا تم اپنے بیٹے کا نام محمد اور لقب میرے نام کی مناسبت سے محی الدین رکھنا اس کی شہرت چہارسو پھیل جائے گی اس سے لوگ رہنمائی حاصل کرنافخرمحسوس کریں گے۔حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے علی بن محمد نے عقیدت سے حضور غوث الاعظم ؒ کے ہاتھوںکو بوسہ دیا

اور شادماں شادماں واپس گھر چلے آئے اور اپنی اہلیہ کو خوشخبری سنائی۔علی بن محمد حاتم طائی کی نسل سے تھے جو اپنی سخاوت کے باعث نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا میں آج تک مشہور و معروف ہیں۔ بنی طے ایک قبیلہ تھا، حاتم اس قبیلے کا ایک سردار تھا جس کے دروازے سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا تھا۔ ویسے بھی عربوں میں مہمان نوازی بہت مشہور ہے بلکہ حاتم طائی کی سخاوت دنیا میں ضرل المثل بن گئی ہے

خود سرور کونین ﷺ نے بھی اس گھرانے کا بڑااحترام فرمایا تھا۔ اپنی شاندار روایات کو عرب جہاں بھی گئے اپنے ساتھ لے گئے۔ حاتم طائی کی اولاد میں سے ایک صوفی منش گھرانے نے اندلس میں آکر رہائش اختیار کر لی یہ گھرانہ علی بن محمد بن احمد ابن عربی الاندلسی الحاتمی الطائی کاتھا۔ ایک رات انہوںنے خواب دیکھا

وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں کہ ان کے گرد نورکاایک ہالہ بننا شروع ہوگیا پھررفتہ رفتہ وہ نو رکا ہالہ پورے ماحول پرحاوی ہوگیااور چاروںاطراف سے اللہ اکبر مرحبا کی صدائیں بلندہونا شروع ہوگئیں اسی اثناء میں ان کی آنکھ کھل گئی تہجد کا وقت تھا علی بن محمد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی

اور وجودمیںطمانیت کی لہردوڑگئی وہ جان گئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور غوث پاک کی دعا کو قبول فرمالیاہے وہ بے اختیار اٹھے اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔ محمدبن علی کا بیٹا ابن ِ عربیؒ بڑا ہوکر عالم ِ اسلام کی حیرت انگیز روحانی شخصیت بنا ابن عربی 17رمضان المبارک 560ھ ( بمطابق 1165ء )میں اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا

اور کوئی مستحکم اسلامی حکومت نہ ہونے کے سبب افراتفری کا سا سماں تھا قافلوںکو لوٹنا راہزنوںکا معمول بن گیا تھا ۔ ابن عربی کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کا قبضہ ہوگیا

جس کے باعث آپ کے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی لہذا آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لینے کافیصلہ کرلیا جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی تو وہ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے عام بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ تاریخ ابن عربی کی ابتدائی تعلیم بارے خاموش ہے

لیکن غالب خیال یہ ہے کہ انہوں نے مروج دستور کے مطابق گھر پر اور دیگر مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں حاصل کی ہوگی اشبیلیہ اسلامی تہدیب وتمدن کا بڑا گہوارا تھا اسی بناء پر آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ اسلامی الہیات ، حدیث ، تفسیر ، فقہ،ریاضی ، اردو شاعری ، تصوف ، سائنس ، فلسفہ ، علمیاتیات ، فلکیات،تصوف، فقہ،منطق،فلسفہ،تحقیق،

اور دیگر مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاء کی خدمت میں گذرنے لگا جس نے ان کی شخصیت اور طبیعت پر گہرے اثرات مرتب کئے اشبیلیہ میں آپ 598ھ تک مقیم رہے اس دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور کئی علوم مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت میں کمال درجہ دسترس حاصل کی آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیاجو ان کی ذہانت اور فطانت سے بہت خوش تھے

ابن عربی کے دادا محمد اندلس کے قاضی تھے اور ان شمار ممتاز علما ء میں ہوتاتھا ابن عربی کے والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں میں سے تھے۔ والدہ انصار سے تعلق رکھتی تھیں ، ابن عربی کے ماموں شیخ یحییٰ بن یغان اور ابو مسلم الخولانی دمشق کے ایک مشہور ولی اللہ تھے۔ادب، تاریخ، شاعری اور بعض دیگر علوم وفنون کا اکتساب ابوبکر محمد بن خلف بن صافی لخمی، ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن غالب شراط قرطبی، ابوبکر محمد بن احمد بن ابی حمزہ سے کیا۔

حدیث اور دیگر دینی علوم کی تعلیم ابن زرقون انصاری، ابوحافظ ابن جد، ابوالولید حضرمی اور عبدالمنعم خزرجی وغیرہ سے حاصل کی۔ ابومحمد عبدالحق اشبیلی کے حلقۂ درس میں ایک عرصے تک شامل رہے۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 کے قریب ہے ابن عربی بچپن ہی سے نیک اور صادق القول تھے اور بہت ذہین بھی تھے۔ ان کی ذہانت کا چرچا جلد ہی دور دور تک پھیل گیا وہ مقبول ہوتے چلے گئے

اور لوگ اکثر ان کو ملنے آنے لگے تھے۔کہاجاتاہے کہ ابن عربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاء ابن رشد نے اپنے دوست اور ابن عربی کے والد سے کہا کہ کسی وقت اپنے فرزند کو میرے پاس بھیجیں مجھے ان سے ملنے کااشتیاق ہے جب ابن ِ عربی نے ابن شد سے ملاقات کی وہ ان کی لیاقت سے بہت متاثر ہوئے خود ابن ِ عربی کا کہناہے

کہ ابن ِ رشد سے پہلی ملاقات کے دوران اس نے عقلی سوچ کے رسمی علم اور چیزوں کی نوعیت کے بارے میں نقاب کشائی کے درمیان فرق کو سمجھنا سیکھا ۔ اس کے بعد اس نے تصوف کو اپنایا اور اپنی زندگی روحانیت کے لئے وقف کر دی۔ جب وہ بعد میں مراکش کے شہر فیز میں چلا گیا جہاں محمد بن قاسم التمیمی اس کے روحانی سرپرست بن گئے اس کے والد ، علی ابن محمد ، مرسیہ کے حکمران ، عبد اللہ محمد بن محمد بن سعد بن مردانش کی فوج میں خدمات انجام دیتے تھے۔ جب 1172 عیسوی میں ابن مردان کا انتقال ہوا

تو اس کے والد نے الموحد سلطان ، ابو یعقوب یوسف اول کی بیعت کی اور سرکاری ملازمت پر واپس آگئے۔ اس کے بعد اس کا خاندان مرسیا سے سیویلے منتقل ہو گیا۔ ابن عربی حکمران عدالت میں بڑے ہوئے اور عسکری تربیت میں مہارت حاصل کی۔ ابن ِ عربی کے خواب بھی بہت مشہورہیں انہوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیربھی کتابیں اتنی لکھیں کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کے مختلف امورپر انہوں نے کتابیں تحریرکرکے ایک انقلاب بپا کردیا بلامبالغہ اسلامی تاریخ میں اتنا متحرک،فعال اور مصنف بہت کم ہوگذرے ہیں

آپ نے حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفر در سفر تلاش حق،ریاضت اور تبلیغ میں وقت گزارا۔ اس دور میں ذرائع ابلاغ بہت محدودہوتے تھے اور سفردشوارگزار تھے،ان کٹھن مسافتوں میں بھی ان کا پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض جگہ آپ کی کتابوں کی تعداد 651 دی گئی ہے ، جبکہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتابوں کے عنوان درج کئے گئے ہیں

۔ آج ابنِ عربیؒ کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کتابوں بھی چندصفحات پرمشتمل کتابچے یاپھررسالے کی طرح نہیں تھیں صرف ایک الفتوحات المکیہ کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔ ابن عربی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ہے۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت اور عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق ہیں۔ عالم اسلام کے چند اہم دانشوران، مفکرین فلسفیوں اور صوفیاء میں سے ایک شیخ ِاکبر ابن عربی ہیں۔ ابن عربی کو صوفیاء نے ‘‘شیخ الاکبر ’’ کا لقب دے رکھا ہے

اور آج تک یہ لقب کسی اور کو نہیں مل سکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا کیونکہ آپ سے ایک صدی قبل ابن العربی کے نام سے ایک علمی شخصیت امام غزالی کے شاگرد قاضی ابو بکر ابن العربی اشبلیہ ہسپانیہ میں مشہور رہے ہیں۔ دونوں شخصیات میں تمیز کرنے کی خاطر انہیں ابن العربی اور آپ کو ابنِ عربی لکھا جاتا ہے۔ آپ کو ابن العربی صرف آپ کے لقب محی الدین کے ساتھ ہی لکھا۔ کہا جاتا ہے

کہ آپ کے لکھنے کی رفتار انتہائی برق رفتار تھی ۔ سفر یا حضر میں بھی تصنیف و تالیف کا کام جاری رہتا۔ ابن عربی ، عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ جو بات نثر میں بھی لکھنا محال ہو اس کو نظم میں بیتکلف بیان کردیتے تھے۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔

عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’ بھی ہیں۔مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔

فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے۔ شیخ اکبر المعروف ابن ِ عربی نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لے تو اس میں بے پناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے درجنوں بار ابن ِ عربیؒ نے خلافت ِ

عثمانیہ کے بانی غازی عثمان کے والد ارطغرل ؒغازی کی خوابوںمیں رہنمائی فرماکرانہیں مشکلات سے نجات دلائی خوابوں کے ضمن میں ان کے کئی واقعات تاریخ میں رقم ہیں آپ بذاتِ خود لکھتے ہیں:میں نے اپنے آپ کو سیول کے قریب شراف گاؤں میں دیکھا وہاں میں نے ایک میدان دیکھا جس پر بڑا سا ٹیلہ نظرآرہا تھا جس کی بلندی پر میں نے ایک شخص کو کھڑے دیکھا پھر یکایک ایک اور آدمی نمودار ہوا

وہ پہلے شخص کے قریب آیا دونوں نے بڑے تپاک سے ایک دوسرے کو گلے لگایا میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے شخص کے جسم میں مدغم ہوگیا ہے پھر کئی بار وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور ایک شخص بن جاتے پھر علیحدہ ہوجاتے میں نے سوچا ، ‘یہ عجیب آدمی کون ہے؟’ پھر نہ جانے کہاں سے آواز ابھری جیسے میں نے کسی کو یہ کہتے سنا یہ روایت پسند علی ابن حزم ہے۔ میں نے پہلے کبھی ابن حزم کا نام نہیں سنا تھا۔

میرے ایک شیخ ، جس سے میں نے سوال کیا ، نے مجھے بتایا کہ یہ شخص حدیث کی سائنس کے میدان میں ایک اتھارٹی ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن ِ عربی بیس برس کی عمر میں اشبیلیہ کے کسی امیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر شہر کے نامی گرامی ے روساء کے بیٹوں کو بھی مدعوکیا گیا تھا

کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں تھاما اور شراب جام میں انڈیانے ہی والے تھے کہ اچانک ایک شخص کی آواز ان کے کانوںکو سنائی دی آپ نے ادھر ادھردیکھا لیکن وہاں کوئی ایسا نہیں تھا سب کے سب موج مستی میں لگے ہوئے تھے کوئی ان کو کہہ رہا تھا ‘‘فرزند! تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں سنبھلو۔ ’’

اس واقعہ کے بعد ابن عربی نے جام ہاتھ سے پھینک دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل آئے۔ د روازے پر آپ نے ایک وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا وہ بکریاں لئے چلا جارہا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ساتھ ہو چلنے لگے پھر شہر سے باہر جاکر اپنا شاہانہ لباس اس چرواہے کو دیا اور اس کے بوسیدہ کپڑے پہن کر کئی دنوں ویرانوں میں گھومتے رہے اب ان کی کایا پلٹ چکی تھی

وہ دن اور رات ذکر الہٰی میں مصروف ہو گئے اس دوران ان کے دل کی کیفیت بدل گئی۔ اپنی صوفی منش طبیعت کے ہوتے شاہی ماحول سے آپ کا دل اچاٹ ہونے لگا تو آپ نے شاہی ملازمت کو خیرباد کہہ کر زہد و فقر کو اپناشعار بنالیا تصوف میں اندلس کے درجنوں بزرگان ِ دین اور صوفیا ء کرام سے علم حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہواہے کہ انہیں مزید علم کی ضرورت ہے چنانچہ ابن عربی نے حصولِ علم کی خاطر دور دراز کے سفر کئے، وہ جہاں بھی گئے انہوں نے وہیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا

جس سے ان کے ادارت مندوںکی تعدادمیں برابر ہوتا چلاگیا مزے کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم بھی ان سے بہت جلد متاثرہوجاتے تھے جس سے منگول اور بازنطینی بھی ان کی جان کے دشمن ہوگئے۔ابن عربی نے 590ھ ( 1194ء )میں پہلی بار اندلس کی سر زمین سے نکل کرمیں شمالی افریقہ جاپہنچے جہاں انہیں ایسے نابغہ ٔ روزگار صوفیاء کرام کی صحبت میسر آئی جنہوں نے آپ کی روحانی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی نامی صوفی کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا

ابن ِ عربی اس کتاب سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے55نامور صوفیا ء کرام کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔

جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ شمالی افریقہ میں شیخ ابن عربی ؒنے ایک خانقاہ قائم کی۔ دو سال کے عرصے میں وہاں ان کا ایک بڑا حلقہ بن گیاعالم ِ اسلام میں ان کی روحانیت،علمی قابلیت اور انسانیت دوستی آج بھی مشہورہے کیونکہ ان جیسی شخصیت بلاشبہ صدیوں بعد جنم لیتی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں