37

سیاسی بحران کی بھاری قیمت !

سیاسی بحران کی بھاری قیمت !

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائد ایوان اور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے منعقدہ اجلاس کے موقع پر جو افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آئی اورار کان پارلیمان نے جس طرح آئین‘ قانون، جمہوری اصولوں کو پامال کیا ،جس طرح ایک دوسرے سے دست گریباں ہوئے

ایک دوسرے کو تھپڑ ،گھونسے،لوٹے مارے گئے، اس نے پوری دنیا میں پاکستان اور اہل پاکستان کو سخت سبکی سے دوچار کر دیا ہے۔ہماری سیاسی تاریخ میں منتخب ایوانوں کے اندر ایسا سب کچھ پہلی بار نہیں ہوا ہے ،اس سے قبل بھی حکومتی اور سرکاری بنچوں کے مابین ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کرسیاں پھینکنا اور دست گریبان عام سی بات سمجھی جاتی رہی ہے ،

مگر پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے ہائیکورٹ کے احکام بھی پائوں تلے روندنے کی کوشش کی گئی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے برعکس جنگل کے قانون کا ہائوس کے اندر منظرنامہ بنایا گیاہے، منتخب نمائندوں کی جانب سے روا رکھے گئے طرز عمل سے پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا

آئین‘ قانون‘ عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنانے والے سارے لوگ منتخب ایوانوں میں انکی نمائندگی کے مستحق ہیں؟ایوان صوبائی اسمبلی کا ہو یا قومی اسمبلی و سینٹ کا مقدس مانا جاتا ہے ،یہ تقدیس اس وجہ سے ہے کہ اس ایوان میں ریاست کے اقتدار اعلیٰ کی قوت ہوتی ہے،ایوان میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھا کر عہد کرتے ہیں

کہ انہیں عوامی نمائندے کے طور پر جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے، وہ خلوص نیت اور پوری دیانت داری سے انجام آوری کریں گے،آئین و قانون کی پاسداری کریں گے ،مگر عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی سیاسی و جمہوری تربیت سے عاری سیاسی قیادت آئین وقانون کی صرف اس تشریح کو قبول کرتے ہیں کہ جو انہیں فائدہ پہنچائے،جہاں اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ،وہاں اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں،

خلاف ورزی بھی ہونے لگتی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر دور اقتدار میں سیاسی قیادت قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو تر جیح دیتی آئی ہے ،پیپلز پارٹی کے سابق دور میں جب سپیکر کی رولنگ کا معاملہ آیا اور سپیکر نے عدالتی احکامات کو اپنے اختیارات میں غیر ضروری مداخلت قرار دیا تو رضا ربانی سمیت پوری پارٹی کا موقف تھا کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت کنٹرول نہیں کر سکتی،

حالیہ دنوں معزز عدالت نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں کا طریقہ کار‘ وقت اور دن مقرر کرنے کے احکامات جاری کئے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ عدالتی فیصلوں کی تحسین ،جبکہ پی ٹی آئی تنقید کرتی نظر آرہی ہے،یہ اس لئے ہورہاہے کہ ایک طرف منتخب نمائندے اپنا کام خود سے نہیں کررہے تو دوسری جانب اپنے معاملات دوسروں سے حل کروانے کی کوشش کررہے ہیں ،اس کے باعث مداخلت ہوتی نظر آتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تقسیم اختیارات کا نظام ہر ادارے کو دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے، لیکن اس وقت کیا طریقہ تلاش کیا جائے کہ جب اراکین اسمبلی اپنے سیاسی اختلافات کو سیاسی انداز میں طے کرنے کی بجائے اور پارلیمان کے معاملات پارلیمان میں حل کرنے کی بجائے عدالت عظمیٰ میں

خود سے ہی لے کر چلے جاتے ہیں ، ار کان پار لیمان ایک طرف پارلیمان کی سپر میسی خود ہی سلنڈر کررہے ہیں اور دوسری جانب اعتراض کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ عدالتی عظمیٰ سپریم پارلیمان کو حکم نامہ صادر کررہی ہے ، اگر ارکان پارلیمان اپنے معاملات آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پارلیمان کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں گے تو عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
عوام نے پہلے قومی اسمبلی اور اب صوبائی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی ہے ، یہ ساری کارروائی آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر ہو رہی تھی، لیکن بے اصولی کی کچھ سرگرمیوں نے سارے عمل کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں،پارلیمنٹ کے معاون جمہوری ادارے اس موقع پر سارے تنازع کی بنیاد بننے والے منحرف ارکان کا معاملہ طے کرنے میں کامیاب ہوئے

نہ ریاست کو کمزور کرنے والے اقدامات کے سامنے بند باندھا جا سکا،الٹا دنیا کے سامنے تماشا بن کر رہ گئے ہیں، اس صورت حال پر فواد چودھری کاکہنا بجا ہے کہ ہم خانہ جنگی کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ،اللہ کرے ایسا کبھی نہ ہو پائے ،لیکن اس کیلئے ملکی سیاسی قیادت کودانش مندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہو گا ،سیاسی خود غرضی سے نکل کر قومی مفاد اورملک کے مستقبل کیلئے سوچنا ہو گا ،اس بڑھتے سیاسی بحران سے نکلنے کا حل تلاش کر نا ہو گا ،اس کا واحد فوری حل عام انتخابات کا انعقاد ہے ،اگر اس وقت کی آواز کو نظر انداز کیا گیا تو اس کی بھاری قیمت سب کو ادا کرنا پڑے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں