42

آپ بیتی”، تقدیر کے فیصلے ہوکر ہی رہتے ہیں

آپ بیتی”، تقدیر کے فیصلے ہوکر ہی رہتے ہیں 

نقاش نائطی
۔ 966562677707+

وہ جو خود کو عقل و فہم کا پیکر سمجھتے تھے چند بازی گروں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں
جب کوئی گردش آیام کا شکار، کسی کے ہاتھوں لوٹ لیا جانے والا ہوتا ہے تو اس کا فہم و ادراک اس کے کسی کام نہیں آتا ہے۔ 2016 سے 2019 تک عالمی معشیتی انحطاط کا شکار، لاکھوں متوسط تاجروں کی طرح وہ اپنا پہلے سے کمایا بہت سارا سرمایہ کھوچکا تھا، پھر متعدی مرض کورونا کی، عالم پر چھائی دبیز تباہی کی چادر نے، اسے اور بے حال کیا تھا اور اس کے کفیل طرز کچھ اپنوں نے بھی اسے خوب لوٹا تھا لیکن

، “اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے” مثل الٹ، “مصیبت گر آتی ہے تو چاروں سمت سے آتی ہے” اس تفکر سے آزاد، اللہ کی ذات پرتوکل کئے ومصروف معاش تھا، اسے کیا پتہ تھا کہ،اسے تو اور، اپنے اللہ کی آزمائش اور امتحانات سے گزرنا تھا۔ ما قبل موت اس ڈھلتی عمر میں،اپنے بچت سرمائے سے، اسے اور بہت کچھ کھونا تھا۔ وہ پہلے سے دبے قرض سے سبکدوش ہونے مصروف عمل تھا،اس کے پاس اسباب تجارت کا کافی پرانا ہی صحیح، ایک اچھا خاصہ ذخیرہ تھا۔ جو کم و بیش نصف رعایتی قیمت پر بیچتے ہوئے بھی،

اپنے قرض کے بوجھ سے سبکدوش ہوتے ہوئے، تجارت سے تقاعد لئے وطن لوٹنا چاہتا تھا۔دلدل پر پھیلے ذرات زیت پرت پر، چمکنے والی ہزاروں میل دور ستاروں کی کرنوں کو، اس نے اپنے لئے سراب مانند ایک امید افزاء کرن کے طور، پایا اور اس کے پیچھے پورے اعتماد سے چل دیا۔ انسانی تقدیر، نفع و نقصان کے فیصلے تو آسمانوں میں ہوتے ہیں۔ اس کے اشارے سے بندہ انجانی جگہ سے اپنی مٹھی میں مٹی بھی بھر لیتا ہے

تو وہ اس مہربان تقدیر کے سہارے، سونے سے زیادہ قیمت پالیتا ہے اور اسی ذات خداوندی کے،اس کے ذہن میں ڈالے نکتہ پر عمل پیرا، بد قسمتی سے، وہ اپنا بہت کچھ کھودیا بھی کرتا ہے۔ لیکن بندہ کچھ پانے پر اسے اپنی عقل و فہم و ادراک کی وجہ گردانتا ہے تو، کچھ کھونے پر تقدیر کا رونا روتا پایا جاتا ہے۔ جبکہ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی فہم انکار نہیں کرسکتا کہ منافع و خسارہ تجارت، اسی خالق کائینات کی کرم فرمائی یا آزمائش کے طفیل ہوا کرتی ہے۔ ذات باری تعالٰی، وہ بات ہمارے قلوب میں ڈالتا ہے

اور ہم وہی کچھ کر گزرتے ہیں اور اس کے اذن سے، ہمیں دنیوی فوائد و خسارہ، دو میں سے ایک سے دوچار ہونا پڑتا پے۔ جب تقدیر آزمائش لینے پر آتی ہے تو انسان عقل و فہم سے، بے بس ہوجاتاہے،اسی لئے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث کا مفہوم ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی فعل، عمل پذیر ہوجاتا ہےاور اس وقت عقل و فہم “اگر” اور “مگر”میں الجھنے لگتےہیں توشرک کے دروازے اس پر وا ہونےشروع ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ ہوتا تو وہ نہ ہوتا یہ تقدیر سے انکار کی شروعات ہوتی ہے۔

بس اللہ ہی ہمیں، اپنی عاقبت کے بگڑنے سے،آمان میں رکھے، اس لئے کہ بگڑی دنیا تو پھر بھی سنور سکتی ہے، بگڑی آخرت سنوارنا مشکل امر ہوتا ہے۔ساٹھ سترسالہ دنیوی زندگانی کی عیش و عشرت کے لئے ہم مسلمان، رمضان المبارک کی آخری بابرکت طاق راتوں میں بھی، ایک دوسرے کو دھوکا دیتے، اپنی عاقبت خراب کرنےسے نہیں چوکا کرتےہیں۔ گوکہ یہ تجارتی عہد و پیمان ایک مہینہ سے چل رہے تھے لیکن 26 رمضان المبارک کی 27 شب کو، باقاعدہ حکم خرید، پرچیز آرڈر پر دو ڈائنا ٹرک میں الجبيل سے جدہ بھیجا ہوا

،دو ملین ريال قیمت بقدر، کچھ فیصد خصم کے ساتھ 1.85ملین ریال کا 340 کارٹون مال تجارت ،ایک مسلم ساؤتھ انڈین اپنے سعودی کفیل کے ساتھ مل کر، بغیرقیمت ادا کئے دھوکا دے راستے سے مال لے اڑا۔ ظاہری طور یقینا اس قومی تاجرکے لئےایک نقصان عظیم تھا، لیکن رمضان المبارک میں ہوئی یہ دھوکہ دہی، یقینا اس کی عاقبت سنورنے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ کے رسول نے،

آخرت کے مساکین کی تعریف میں جو باتیں بتائی ہیں، اس میں دنیوی لین دین کوتاہی،یعنی حقوق العباد کے تصفیات بعد،نیکوں کے انبار لئے آنے والوں کا قلاش ہوتے، ہم مسلمانوں کا آخرت کے مساکین سے تعبیر کرنا ہے۔ بس اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق العباد والی، اپنی کوتاہیوں کے چلتے، آخرت کے ہونے والے مساکین میں سے نہ بنائے۔آمین قارئین سے اپنی دنیا و آخرت کی سرخروہی کے لئے،دعا کی التجا کی ساتھ، وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں