51

انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں !

انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں !

گزشتہ روز مقدس ترین مقام مسجد نبوی میں پاکستانی حکومتی وفد کی موجودگی پر پاکستانی زائرین نے جو سیاسی نعرے بازی کی انتہائی قابل مذمت ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے ایوان اقتدار میں جوکچھ ہو رہا ہے ، اس پر عوامی غضب کتنا اور کہاں تک سرایت کر گیا ہے؟جہاں نظر دوڑائیں افرا تفری نظر آتی ہے ، عوام کے ذہنوں میں خلفشار پیدا ہو چکا ہے ،دلوں میں بغاوت اُٹھ رہی ہے ،عدم برداشت کا مادہ انتہائی کم ہورہا ہے اور ایسا لگنے لگا ہے کہ بس ایک تیلی لگانے کی دیر ہے۔
اس صورت حال میں یہ امر قابل غور ہے کہ جب ملکی حالات اتنے خراب تھے تو حکومت تبدیل کرنے کا پنگا کیوں لیا گیا ہے ،اس تحریک عدم اعتماد میں جو بھی شامل تھے یا پیچھے کھڑے ہو کر ہلہ شیری دیے رہے تھے ،کیا یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کو ہٹانے سے سب کچھ بدل جائے گا ،ان کی منشاء ضرور پوری ہو گئی ،

مگر کچھ بھی نہیں بدلا ہے،ملکی حالات بہتر ہوئے نہ سیاسی افراتفری کم ہو رہی ہے ،بلکہ مزید بڑھتی ہی جارہی ہے ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو عدم اعتماد کے ذریعے بندوبست لایا گیا ہے ،وہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گااور بل آخر موجودہ حکومت کو انتخابات ہی کی طرف جانا پڑے گا۔
اپوزیشن اتحاد نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت ختم کر کے شہباز حکومت قائم تو کرلی ہے، تاہم تحریک انصاف نے مبینہ امریکا سازش اور دھمکی کو اپنی حکومت کے خاتمے کا سبب گردانتے ہوئے

ملک میں سیاسی تقسیم مزیدگہری کردی ہے اور ایک ایسا سیاسی فرقہ بنالیا ہے کہ جو کسی دوسری رائے کا احترام تو کجا،اپنے خلاف کوئی فیصلہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے،یہ انتہائی اچھا ہوتا کہ عدالت عظمیٰ عدالتی کمیشن قائم کرکے مبینہ امریکی سازش اور دھمکی کا پردہ چاک کر دیتی، مگر تحریک انصاف نے اب اپنی توپوں کا رُخ الیکشن کمیشن کی طرف موڑ دیا ہے اور فارن فنڈنگ کیس میں اپنے خلاف ممکنہ

فیصلے کے آنے سے پہلے ہی اِسے متنازع قرار دے کر چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کرکے ایک طرف آئین اور سیاسی وانتخابی نظام کو عملاً چیلنج کرکے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری طرف صدرِ پاکستان عارف علوی کے نومنتخب وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لینے سے انکار اور نئے گورنر پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار نے کئی قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
یہ ایک عام تاثر تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے حالات بہتر ہو جائیں گے ،مگر اس کے برعکس ملک کے سیاسی حالات مزید انتشار کی جانب بڑھتے جارہے ہیں ،وزیراعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے فوری بعد نئے انتخابات کروائے جائیں گے، مگر اب ایسا لگنے لگاہے کہ وہ انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کے ایجنڈے کو پس

پشت ڈال کر اتحادیوں میں وزارتیں بانٹ رہے ہیںاور عالمی طاقتوں اور ساہوکاروں کی حمایت اور مدد لینے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ہیں ، انتخابی اصلاحات اور فوری انتخابات کی اب کوئی بات ہی نہیں کی جارہی ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہباز شریف حکومت میں آتے ہی، الیکشن کمیشن مکمل کرتے، انتخابی اصلاحات کے لیے اقدامات شروع کرتے اور الیکشن شیڈول کا اعلان کرتے، لیکن انہوں نے بیرونی دوروں

اور ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔موجودہ حکومت کا دعویٰ کرتی رہی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیاتھا،اس لیے چار سال پرزور مطالبہ کرتے رہے کہ نئے انتخابات کروائے جائیں، اب جب کہ قومی اسمبلی کے تقریباً ادھے ارکان بھی مستعفی ہو چکے ہیں، کیا انہیں اچھا لگتا ہے کہ وہ بلاشرکت ِ غیرے کاروبارِ مملکت چلاتے رہیں،مقننہ کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن کے دو پہیوں پر چلتی ہے،اس کے بغیر قانون سازی کی جاسکتی ہے نہ ایوان چلایا جاسکتا ہے

،اس لیے جلد از جلد نئے انتخابات کی طرف ہی بڑھنا ہوگا، شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ،ملک بھر میں بڑھتی پولرائزیشن، سیاسی کشمکش اور غیر یقینی صورتحال کے جلد خاتمہ کے لیے شہباز حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے بین الجماعتی مذاکرات اور نئے قومی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے،یہ دونوں کام جتنی جلدی کریں گے اچھا ہوگا، ورنہ سیاسی تقسیم انارکی میں تبدیل ہوجائے گی، اس کا سارا نقصان ریاست، جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں