43

شادیاں کیوں نہیں ھوتیں؟

شادیاں کیوں نہیں ھوتیں؟

کالم نگار محمد صدیق حیدر
شادیاں نہ ھونا کتنا بڑا ایشو اور غور طلب مسئلہ ھے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ھیں کہ جس وقت آپ یہ پوسٹ پڑھ رھے ھیں، ٹھیک اسی وقت پاکستان کے ھر چوتھے گھر میں ایک لڑکی تیس سال کی ھو چکی ھے شادی کے انتظار میں، اور ان کے بالوں میں سفیدی آ لگی ھے۔
جن کی تعداد لگ بھگ پچاس لاکھ بنتی ھے۔
ایک اوسط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ لڑکیاں شادی کی منتظر ھیں۔اسی معاشرے کا ایک فرد ھونے کے ناطے ھمیں یہ مسئلہ اپنی طرف کھینچ رھا ھے۔۔ھماری اس تحقیق اور سروے کے مطابق شادیوں کے ھونے میں سب سے بڑی رکاوٹیں چار چیزیں ھیں۔جو نیچھے تفصیل سے لکھی گئی ھیں۔

1 جہیز یا ولور

سب سے بڑی رکاوٹ جہیز یا ولور ھے، والدین کو اکثر اوقات رشتہ تو مل جاتا ھے مگر جہیز یا ولور کے لئے پیسے نہیں ھوتے۔جہیز کا مطلب ھے کہ لڑکی کے والدین کو اتنا ذلیل کرنا کہ پھر وہ پوری زندگی قرض ھی ادا کرتے رھیں جبکہ ولور کا مطلب ھے کہ بیٹی کے شوھر کو نکاح سے پہلے مقروض کر کے اپنی بیٹی کو کسی مقروض کے گھر بھیج دیا جائے۔ اس مسئلے نے تقریباً تمام غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کو نشانہ بنایا ھوا ھے۔
جس کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ شادیاں نہیں ھوئی یا نہیں ھو رھیں۔۔۔

2 ذات۔پات

یہ وہ ناسور ھے جس نے کسی طبقے کو نہیں چھوڑا، امیر اور غریب، جاھل اور پڑھے لکھے، حتی کہ دیندار طبقہ، سب اس حمام میں ننگے ھیں۔یہ دوسری بڑی بیماری ھے جس نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ھے۔اس ذات پات کی وجہ سے روزانہ ایک ھزار سے زیادہ رشتے رد کئے جاتے ھیں۔یعنی اگر صرف ذات پات کا مسئلہ ھی حل ھو جائے تو 20 لاکھ شادیاں کچھ دنوں میں ھو جائیں۔۔۔

3 بزدلی لالچ آئیڈیل

یوں تو تقریباً ھر مسئلے کی وجہ ھی بزدلی ھوتی ھے اور یہ وسیع موضوع بھی ھے۔ مگر ھم یہاں خاص طور پر بزدلی کو ایک بہت بڑا ناسور سمجھتے ھیں۔کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی اس لئے نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ھیں یہ پڑھے، پھر جاب کرے اور پھر شادی ھو جائے تاکہ ان کی زندگی بہتر گزرے۔مگر پڑھنے، جاب دیکھنے اور پھر سال دو سال ان کے پیسے کھانے کے بعد لڑکی کو کہا جاتا ھے کہ اب خود رشتہ دیکھ لے۔
جبکہ وہ بیچاری 35 سال عمر کراس کر چکی ھوتی ھے۔ بزدل صرف والدین نہیں ھوتے بچیاں بھی ھوتی ھیں۔ مجھے کئی سو لوگوں نے یہ رائے بھی دی کہ ان کو وہ ھیرو یا آئیڈیل نہیں ملتا، جو ان کو چاھئے، پھر وہ ایک دن ویلنٹائن کے انتظار میں صرف ویلن کو گلے لگا لیتی ھیں۔کچھ لڑکیاں لاڈلی بنی ھوتی ھیں تو وہ شادی اس لئے نہیں کرتیں کیونکہ ان کو ڈر ھوتا ھے یہ مزے وھاں نہیں ملنے لگے۔ بزدلی سے شادی نہ ھونے کا سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ھوتا ھے جب لڑکی یا لڑکے کو عشق ھو جائے اور گھر والے نہ مانے پھر بھی ایک نمایاں تعداد شادی کرنے میں شرم محسوس کرتی ھے

4 دوسری۔شادیاں

بدقسمتی سے ھمارے معاشرے میں یہ خوف سا ھے کہ دوسری شادی پتہ نہیں کتنا بڑا ظلم ھے۔
ایک تو ھماری زبانوں میں دوسری بیوی کا نام اتنا خوفناک ھے سوتن، بن، وغیرہ۔جس سے لوگ ڈر جاتے ھیں۔انڈین کلچر، رسومات، فلمیں ڈرامے اور سوپ سیریلز نے پاکستانی لوگوں کی زندگیاں خراب کر دی ھیں۔۔۔دوسری شادی کو ایک معاشرتی ناسور بنا کر رکھ دیا گیا ھے۔عورت ھی عورت کی دشمن ھے۔ جبکہ مرد اگر انصاف کر بھی سکتا ھو تو دوسری شادی کا نام نہیں لے سکتا۔۔۔

حل:

ھمیں چاھئے کہ ایک بھرپور تحریک چلائیں۔شادی ھالوں، دھوم دھام والی شادیوں، جہیز، ولور، سجاوٹ پہ بے پناہ اخراجات، نمود و نمائش، قیمتی اور انتہائی مہنگے ڈریس، اور ذات پات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔لڑکی والوں کے گھر کھانے پہ مکمل پابندی لگا دی جاۓ۔۔نکاح انتہائی سادہ اور مسجد میں کیا جاۓمروجہ ناجاٸز مہندی، مایوں اور دیگر خرافات پہ سخت پابندی اور سزائیں ھوں۔شادی کےجملہ اخراجات دلہے کی ایک تنخواہ یا ماھانہ آمدنی سے زیادہ نہ ھوں نکاح کی دستاویزات اور مراحل بہت آسان ھوں۔۔۔

بارات بینڈ باجہ پہ پابندی ھو۔نکاح پہ صرف دلہے کے گھر والے ھی آئیںشادی کا بڑا فنکشن صرف اور صرف ولیمہ ھو۔وہ بھی دلہا کی استطاعت کے مطابق۔جبکہ حکومت کو چاھئے کہ ایک قانون بنائے جس کی رو سے کسی لڑکی یا لڑکے کو تب تک یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملے جب تک وہ نکاح نامہ ساتھ نہ لائے۔۔۔

حکومت کو یہ بھی چاھئے کہ جہیز، ولور اور لڑکیوں کی شادی سے پہلے جابز پر مکمل پابندی لگائےجاب صرف شادی شدہ خواتین کو دی جائےیا ایسی خواتین کے لئے جابز کی رعایت کردی جائے جن کا کوئی اور زریعہ معاش نہ جیسے بعض خاندانوں کی کفالت خواتین خود کرتی ہیں جن کے والد یا بھائی وغیرہ نہیں ہوتے یا روزگار سے معذور ہوتے ہیں سوسائٹی یہ بھی کر سکتی ھے کہ مشترکہ شادیوں کو ترویج دی جاۓ جہاں صرف ایک سادہ ڈش اور زیادہ سے زیادہ شادیاں ھوں۔۔۔

دوسری شادی کا رواج عام کیا جاۓ۔۔جن مردوں کی مالی اور اسبابی استطاعت میسر ھے ان کی بیویاں اپنا ظرف بڑا کریں۔۔۔

اللہ اجر دینے والا ھے۔۔۔جس محلے یا یونین کونسل میں کوئی بیوہ یا مطلقہ عورت موجود ھو وھاں کا چیئرمین اس کی دوسری شادی کے لئے معاونت کا ذمہ دار ھو۔۔۔انڈین میڈیا کی جہالت اور بھارتی رسومات ختم کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات، خانگی نظام اور شادی کے اصل طریقہ کار کی مناسب تشہیر کی جائے۔۔۔

یاد رکھیں۔۔۔جلدی شادیوں کا نہ ھونے سے زنا بڑھ رھا ھے۔۔۔

نسوانیت ختم ھو رھی ھے،
مردانگی ضائع ھو رھی ھے،
بے راہ روی عام ھو رھی ھے،
معاشرتی ناھمواریاں پیدا ھو رھی ھیں،
چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ریپ اور قتل و غارت ھو رھی ھے،
اغلام بازی اور امرد پرستی یعنی)خوبصورت لڑکوں سے دوستی( کی نحوست بڑھ رھی ھے۔۔۔

اگر اب بھی کچھ نہ سوچا گیا تو آنے والا وقت مزید تباھی و بربادی کے ساتھ ھمارا منتظر ھے۔۔۔

اور سب سے بڑھ کر ھم سب نے اس کا جواب دینا ھے اللہ کے ھاں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں