ائے مجرموں کی جماعت
ائے مجرموں کی جماعت
قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے
پارہ 23سورة یٰسن آیت 59
ائے مجرموں آج الگ ہوجاو
وہ جو سب کا اخیتار رکھتا ہے وہ ہم سے کہے گا ائے مجرموں الگ ہوجاو تب کیا عالم ہوگا شرمندگی کا کیسا ڈوب مرنے کا مقام ہوگا کسی تف ہوگی ہم پر اس وقت دنیا کہ زندگی میں مگن رہنے کا انجام پا لیا جائے گا افسوس ہوگا ان پر جو کو نامہ اعمال پشت سے دیا جائے گا ان کے بائیں ہاتھ میں آہ! کیسی بربادی کسی تباہی ہوگی وہ دن جس کے بارے میں بہت پہلے بتایاجا چکا ہے پھر بھی انسان غلفت میں ہے پھر بھی اس کی تیاری نہیں کرتا ایک آسان سی مثال لیں کہ اسکول کے بچے کے سالانہ امتحان ہوتے ہیں
وہ ادھر ادھر دوستوں سے استاد سے اپنے سے اگلی جماعت کے طباء سے مدد مانگتا ہے ان سے ان کے گزشتہ سال کے امتحانات میں آنے والے سوالات کے بارے میں دریافت کرتا ہے تاکہ وہ کچھ آسانی سے پرچوں کی تیاری کرسکے ۔
کیسے انسان ہیں ہم ہمارے پاس تو پوری زندگی کا نصاب موجود ہے بلکل ہمیں تو ہماری الہامی کتاب میں گزشتہ امت کے گناہ اور انکی سزائیں بھی بتاچکا ہے ہمارا اور کتنی آسانی مانگتا ہے یہ انسان ہے ہر عمل کی سزا اور اس کی تباہی پتا ہونے کے بعد بھی اگر انسان غلطی کرتا ہے تو یہ سراسر اس کی اپنی مرضی ہے
الله پاک نے تو انسان کو رحمن اور شیطان دونوں کا راستہ بتادیا ہے اب وہ کس پر چلتا ہے اور کیساعمل کرتا ہے اور کون سی جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ جن پر اس نے انعام کیا یا ان کا جس پر اس کا غضب ہوا اور جس کے لیے وہ محشر کے دن کہے گا ائے مجرموں کی جماعت الگ ہوجاو ۔