ٹوٹ اور اٹوٹ
جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
رشتے بھی کیا عجیب ہوتے ہیں انسان جتنا بھی غورکرے یا جتنا بھی انکارکرے اٹوٹ ہوتے ہیں اس میں انسان کا کوئی کمال نہیں رشتوںکاانتخاب قادرِ مطلق کا منتخب کردہ ہوتاہے کوئی اپنے بہن بھائی،والدین سے قطع تعلق بھی کرلے تو رشتہ اٹوٹ رہتاہے ختم نہیں ہوتا ان رشتوںکا انکاری اللہ تعالیٰ کے فیصلوں سے انکارکا مرتکب ہوتاہے دنیا کا ایک بھی فرد اس بات پر قدرنہیں کہ وہ اپنے رنگ،روپ، حسب ،نسب کو اختیارکرنے پر قادرہو وہ اس کے لئے اللہ کے فیصلوںکا محتاج ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں
اس کی پیدائش اس کی کسی خواہش کے تابع ہو یہ رشتوںکا گورکھ دھندا ہے ہی ایسا یہ آبگینوںسے بھی نازک ہوتے ہیں بندہ غورکرے تو محسوس ہوتاہے کہ رشتے اللہ تعالیٰ کا گراں قدر عطیہ ہے رشتوںکا کوئی نعم البدل ہوتاہے نہ ہو سکتاہے اربوںکھربوں لوگوں کے درمیان آپ کے ماں جائے محض اتنے ہیں جن کا شمار انگلیوںپر کیا جاسکتاہے پھر رشتوں کی قدرکرنا یا احترام نہ کرنا کتنی عجیب بات ہے
اس نے میت والی چارپائی کا ایک پایا پکڑ کر بڑے رعب سے کہا لیا اور بولا کہ مرحوم نے میرے 15 لاکھ دینے تھے۔ پہلے مجھے میرے پیسے دو پھر اس کو دفن کرنے کی اجازت دوں گا۔ وہاںتو رولا پڑ گیا اب تمام لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں ادھرادھرسے مزید لوگ جمع ہوگئے ایک بیٹے نے کہا ہم تو آپ کو جانتے تک نہیں کہ آپ کون ہیں ؟ دوسرا بولا ابا جی نے تو کبھی ہمیں تو کوئی ایسی بات نہیں بتائی وہ مقروض ہیں
، اس لئے ہم 15 لاکھ کیوں دیں تیسرا بولا ہاں مجھے یاد ہے آپ کبھی کبھار اباجی کے پاس آیا کرتے تھے لیکن اس سے کیسے ثابت ہوگا کہ ہمارے والد آپ کے مقروض تھے ، قرض کا تقاضا کرنے والے نے کہا بیٹے انکاری ہیں تو مرحوم کے بھائی موجود ہیں وہ قرض ادا کر دیں میں جانتاہوں کہ مرحوم نے اپنے دو بھائیوں کو اپنے خرچۃ پر مکان بناکردئیے تھے متوفی کے بھائیوں نے تنک کر کہا کہ جب بیٹے ذمہ دار نہیں
اور اس نے بدستور میت والی چارپائی پکڑی ہوئی ہے۔ جب کافی دیر گزر گئی تو بات گھر کی عورتوں تک بھی پہنچ گئی کہ عجیب ضدی شخص ہے کسی کی بھی بات نہیں مان رہا بدستور اپنے قرض کا تقاضا کئے جارہاہے مرحوم کی اکلوتی بیٹی نے جب بات سنی تو اس نے فورا اپنا سارا زیور اتارا اور اپنے پاس جتنی بھی رقم تھی لے کر اس آدمی کے پاس پہنچ گئی اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا ا خدا کے لئے یہ رقم ا لے لو ور زیو بیچ کر بھی تمہاراقرض پورا نہیں ہوتا تو اپنے خداکو گواہ بناکر وعدہ کرتی ہوں کہ مرنے سے پہلے ضرور آپ کے بقایا پیسے بھی ادا کردوں گی خدارا میرے ابو کا جنازہ نہ روکو۔
کہ میں نے مرحوم سے 15 لاکھ لینے نہیں بلکہ اس کے دینے ہیں اور اس کے کسی وارث کو میں جانتا تک نہ تھا تو میں نے یہ کھیل کھیلا اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے اور اسکا کوئی بیٹا یا بھائی نہیں ہے۔ اب لوگ اس کی دانائی پر عش عش کر اٹھے مرحوم کے بھائی منہ اٹھا کے اسے دیکھ رہے ہیں اور تینوں بیٹے بھی۔ اسی لئے امیرالمومنین حضرت علیؓ نے فرمایا تھا
احساس کے رشتے خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں بیٹا ،بیٹی ،بھائی یا دوست جوبھی احساس کرناوالا ہو وہی پائیدار رشتوںکی ڈورمیں بندھا ہوا ہے لیکن انسان سمجھتا کب ہے؟ بند ہ غورکرے تو محسوس ہوتاہے کہ رشتے اللہ تعالیٰ کا گراں قدر عطیہ ہے رشتوںکا کوئی نعم البدل ہوتاہے نہ ہو سکتاہے اربوںکھربوں لوگوں کے درمیان آپ کے ماں جائے محض اتنے ہیں جن کا شمار انگلیوںپر کیا جاسکتاہے
انسان کو اپنا طرزِ عمل بدلناہوگا لالچ میں آکر اپنے ہی خونی رشتوںکی بے قدری اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے منافی ہے اس لئے رشتوںکی قدرکرنا ہم سب پر واجب ہے ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔