185

شیو لنگ اور لِن٘گ پُوجا

شیو لنگ اور لِن٘گ پُوجا

نقاش نائطی
۔ +966562677707

لنگ پرستی، مردانہ طاقت کی علامت کے طور پر عضو تناسل کی پرستش کرنے کا چلن جو کئی قدیم تہذیبوں میں عام تھا اور اب بھی ہندوؤں میں شیو لنگ کی پوجا کے طور پر مروج ہے

ہندو کتابوں کے مطابق شیوجی یگیوں اور راگوں کے مالک، درخشان، تاباں، فیاض، انسانوں،گھوڑوں حیوانوں، اور گایوں کو تندرستی دینے والے پرورش کنندہ، مرضوں کو دور کرنے والے اور گناہوں کو معافی دینے والے ہیں۔ وجر، کمان اور تیر رکھنے والے، خوفناک اور مہلک شکل جنگلی جانور کی طرح ہیں۔ انہیں ایشان، مہشیور اور مہادیو کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کی ابتدا ،انتہا اور انجام نہیں ہے۔ متبرک اما کے خاوند مثل نیل کنٹھ تین آنکھوں والے اور سب سے اعلیٰ مالک ہیں۔ یہی برہما جی، یہ ہی اندر، یہی وشنوجی اور غیرفانی ہیں۔

رامائین میں شیوجی کو عظیم دیوتا کہا گیا۔ شیوجی کی وشنوجی سے لڑائی ہوئی تاہم برہما اور وشنو جی نے ان کی پوجا بھی کی تھی۔ مہابھارت میں وشنو جی اور سری کرشن جی کو بڑا کہا گیا ہے۔ لیکن بعض جگہ شیوجی کو اعلیٰ اور مالک لکھا ہے۔ جس کی وشنو جی اور سری کرشن جی نے پرستش کی ہے۔ شیو جی مہادیو ہیں اور اندر، وشنو جی اور برہما کو انہوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ پورانوں کے مطابق وشنو اور شیو ایک ہستی ہیں۔

مرد جب شیو لنگ بن جائے”ستی دیوی(شیو دیو کی بیوی) نے اپنے محبوب خاوند شیو دیو کی توہین برداشت نہ کرتے ہوئے،باپ کی سلگائی ہوئی یجنا کنڈ میں چھلانگ لگا دی۔ شیو نے اپنی بیوی سے بچھڑا تو وہ ٹوٹ کر رویا۔ اس کی آنکھوں کی برسات جہاں بھی برسی اور یہ کٹک شا (آنسوؤں کی لڑی لنک کی شکل) وجود میں آئی۔“

”ستی دیوی کے فراق میں پریشان شیو جنگلوں میں برہنہ گھوم رہے تھے۔ ان پہاڑیوں پر رشیوں اور منیوں کا بسیرا تھا۔ ان کی عورتیں شہوت کے سبب مہادیو شیو سے لپٹ گئیں۔ یہ دیکھ کر رشی اور منی سخت ناراض ہوئے اور مہاراج شیو کو شراپ بددعا دے دیا۔ شیو مہاراج کا لنگ (عضو تناسل) کٹ کر پاتال میں گر گیا۔ ہر طرف آگ ہی آگ بھڑک اٹھی۔ ترلوک (عالم) کا بندوبست درہم برہم ہو گیا۔ سب بھسم ہوتا جا رہا تھا۔

دیوتا پریشان ہو کر دیوی پاروتی کے پاس آئے۔ پاروتی دیوی، (شیو دیوتا کی پتنی) سنی دیوی کا ہی دوسرا جنم تھی۔ دیوتاؤں نے ساری کتھا سنائی اور مدد چاہی۔ دیوی پاروتی نے یونی (اندام نہانی) کی شکل میں خود کو ڈھال کر، شیو کے لنگ کو اپنے میں دھارن کر لیا۔ تب کہیں آگ ٹھنڈی پڑی، اس طرح تینوں جہانوں کا نظام درست ہوا۔ شیو دیوتا کو اس کی چہیتی بیوی ستی دیوی، پاروتی کی شکل میں دوبارہ مل گئی۔ ان کے بھوگ سے ہی تمام پرانوں کا جنم ہوا۔

وید کہتے ہیں اگر پتی پتنی میں کھنڈت (اختلافات) پڑ جائے تو پتنی اس استھان پر لنگ پوجا کرے۔ شیو مہاراج اس سنکٹ سے مکتی دلا دیں گے۔ زن و شوہر کے شادی شدہ زندگی میں خوشیاں بھر دیں گے۔ دونوں پریم بندھن میں بندھ جائیں گے۔ ”

” شیو دیو خود ہر وقت پوجا میں مصروف ہوتے ہیں۔ اکیلی عورت کو لنگ چھونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس سے مہاراج کا دھیان بٹ جاتا ہے اور پوجا بھنگ ہو جاتی ہے۔ صرف پھاگن کے مہینے، اماؤس کی کالی سیاہ رات میں یہ پوجا ہو سکتی ہے۔“ جس زمانے میں ویشنو دھرم اہنسا کا پرچار کرتا ہوانئی صورت میں آندھرا اور تامل میں،شیو فرقہ کی مخالفت میں پھیل رہا تھا۔ اس زمانے میں ایک نئے شیو فرقہ کا ظہور ہوا

۔ کناری بھاشا کے بسوپران سے پتہ چلتا ہے کہ کنچوری راجوڑی راجہ بجل کےزمانے میں بارھویں عیسویں، بسو نام کے ایک برہمن نے جین دھرم کے مقابلے میں لنکایت مت کا پرچار کیا اور جنگموں (لنکایتوں کے دھرم اپدیشکوں ) پر کثیر رقم خرچ کرنے لگا۔ اسے راجہ بجل نے اپنا مشیر بنالیا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ شیو نے اپنی روح کو دو حصوں لنگ اور جسم میں تقسیم کردیا ہے۔ اس لیے یہ لنگ کو چاندنی کی ڈبیا میں بند کرکے اپنے گلے میں پہنتے تھے۔ یہ اہنسا (جیو یا جینے دو) کو اہمیت اور ہندو معاشرے کے خاص رکن برنوں (ذات پات) کی تفریق کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی تپ اور سنیاس کو اہمیت دیتے تھے۔

بسو کا کہنا تھا کہ ہر شخص چاہے وہ سادھو ہی کیوں نہ ہو ، اسے محنت کرکے اپنا روزگار پیدا کرنا چاہیے اور بھیگ مانگنا اس نے معیوب قرار دیا۔ اس نے بدھوں اور جینیوں کی طرح اپنے پیروں کی اخلاقیات پر بھی توجہ دی، بھگتی اس فرقہ کی نمایاں بات تھی اور اس نے لنگ کو اپنا نشان قرار دیا تھا۔ ان میں جینو سنسکار کی جگہ وہاں دیکشاسنسار ہوتا تھا۔ گایتری منتر کی جگہ یہ اوم نمتہ شیوایۃ کہتے

اور جنیو کی جگہ گلے میں شیو لنگ لٹکاتے ہیں۔ ہنسا کے پرچار کے باوجود یہ لوگ جینوں کے دشمن تھے اور ان کی مورتیوں کو توڑوا کر پھیکوا دیا کرتے تھے۔ اس فرقہ نے لنگم کی پوجا کرنا شروع کی اور یہ فرقہ لنگم یا لنگ کی نسبت سے لنگایت کہلاتا تھا۔ اس طرح لنگ پوجا کو مقبولیت حاصل ہوئی اور رفتہ رفتہ شیو کے مندروں میں شیو کی مورتی کے بجائے لنگم کی پوجانے لگی۔ جو اب تک جاری ہے

شیو کی پرستش دو طرح ہوتی ہے۔ ایک دکشنا کار اور دوسری باما کار۔ دکشنا کار والے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور کالی کو چنڈی مانتے ہیں اور باما کار مارگی کہلاتے ہیں۔ وہ پوشیدہ طور پر پوجا کرتے ہیں۔ وہ برہنہ عورت کی شرم گاہ کو پوجتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔ زناکاری کرتے ہیں۔ شیو کے اوپاسک اکثر لامذہب، وحشی، عیبی اور نشہ باز دیکھے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ہندو کمیونٹی ریکارڈ کے مطابق ایک ہندو بھی موجود نہیں ہے لیکن اسی شہر کے مضافاتی علاقے میں ایک ’تین ہزار سال پرانا مندر‘ موجود ہے جہاں مقامی افراد کے مطابق ’دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ہندوؤں کا مقدس پتھر ’شیولنگ‘ موجود ہے۔‘
تین ہزار سالہ تاریخ درشن لال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور یونیورسٹی اور ہزارہ یونیورسٹی کے آرکیالوجی شعبے کے محققین نے اپنے تحقیقی مقالوں میں اس مندر کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے

کہ یہ تقریباً تین ہزار سال پرانا ہے۔ اسی مندر کی تاریخ کے حوالے سے ساؤتھ ایشین سٹڈیز نامی جرنل میں لکھا گیا ہے کہ یہ مندر ہندوؤں کے دیوتا ’شیو‘ کی عبادت کے لیے مشہور ہے۔
اسی مقالے کے مطابق یہ پاکستان میں موجود چند تاریخی مندروں میں شمار ہوتا ہے جسے ہندوکمیونٹی نے وقتاً فوقتاً مقامی بااثر لوگوں کی مدد سے محفوظ رکھا ہے۔
مقالے کےمطابق انیسویں صدی میں اس مندر پر تحقیق کی گئی جس میں تین بنیادی مسائل سامنے آرہے تھے۔
پہلا مسئلہ اس مندر کی قدامت کا تعین تھا اور دوسری بات کہ جو شیولنگ اس میں موجود ہے آیا وہ ہاتھ سے بنا ہے یا قدرتی طور پر ایسی ہی شکل میں یہاں لایا گیا تھا۔ تیسری اہم بات کہ یہ شیولنگ کتنا قدیم ہے۔مقالے کے مطابق مندر کی تاریخ کے بارے میں کچھ شواہد ایسے ملے کہ یہ 14 ویں صدی میں بنایا گیا تھا جب کہ مندر کے اوپر بنا گنبد 17 ویں صدی کی تعمیرات سے ملتا جلتا ہے اور اس مسجد مہابت خان پشاور یا نوشہرہ میں صوفی کاکا صاحب کے مزار سے مشابہت رکھتا ہے جسے مغل دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

مندر میں موجود شیولنگ کی تاریخ درشن لال کہتے ہیں کہ یہ شیولنگ تین ہزار سال پرانا ہے اور ’ایسے قد آور شیولنگ دنیا میں کُل چار رہ گئے ہیں جن میں سے ایک بھارت، ایک بنگلہ دیش، ایک نیپال اور ایک اسی مندر میں موجود ہے ۔ درشن لال نے بتایا ’اصلی حالت میں موجود یہ شیولنگ ہندوؤں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں تو جہاں پر اس سائز کے شیولنگ ہوں، ہندو وہاں تیرتھ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔‘

پشاور یونیورسٹی مقالے کے مطابق شیولنگ کے پتھروں کو چار سے چھ اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے تاہم اہم اقسام ان میں سے دو ہیں، ایک کو ’بنا لینگاس‘ اور ایک کو ’مانوسا لینگاس‘ کہا جاتا ہے۔ مقالے کے مطابق بنا لینگاس عام طور پر دریا کے کنارے اور نالوں کے قریب پائے جاتے ہیں اور ان کی شکل اور ہمواری بہتے پانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسے قدرتی طور پر بنایا ہوا کہا جاتا ہے۔
انہی شیو لنگ میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہندو عقیدے کے مطابق دیوتا کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جن کو ’شیوا لنگم‘ کہا جاتا ہے اور یہی شیولنگ ہندوؤں کے لیے سب سے مقدس ہوتا ہے۔
دوسری قسم کے ’مانوسا لنگ‘ آرٹسٹ ہاتھوں سے بناتے ہیں اور اس کے لیے خاص کاریگر ہوتے ہیں۔ مقالے میں محتاط اندازے کے مطابق یہ شیو لنگ ہاتھ سے تیار کردہ ہے۔

اس مندر پر تحقیق میں تیسرا مسئلہ شیولنگ کی تاریخ کا تھا کہ وہ کب سے یہاں پر موجود ہے۔محققین کے مطابق شیولنگ کی درست تاریخ کا تعین ایک مشکل مرحلہ ہے تاہم مانسہرہ کا یہ شیولنگ پاکستان میں سائز کے اعتبار سے بڑا ترین ہے مقالے کے مطابق اس شیولنگ پر موجود کچھ رسم الخط ایسے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شیولنگ اسی جگہ پر تیسری صدی سے پانچویں صدی یا 822 سے 1026 صدی تک موجود تھا

اور ہندؤں کی عبادت کی جگہ تھی۔ یہ شیولنگ بغیر کسی عمارت کے سرراہ موجود تھا جس کی عبادت کے لیے زائرین آتے تھے اور بعد ازاں 1818 سے 1842 تک سکھ دور میں باقاعدہ اس کے لیے مندر کی تعمیر کی گئی ہے۔
درشن لال کے مطابق بھارت میں جب بابری مسجد کو گرایا گیا تھا تو پاکستان میں دیگر مندروں کی طرح اس مندر کو بھی مسمار کیا گیا اور اس سے شیولنگ کو باہر پھینک دیا گیا تھا تاہم بعد میں دیگر مندروں کی طرح پاکستانی حکومت نے اس کی تعمیر کروائی اور اس کو محکمہ اوقاف نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔مقالے کے مطابق اس مندر میں موجود شیولنگ کی تاریخ کے بارے میں مسند شواہد تو موجود نہیں ہیں لیکن اس کا موازنہ کشمیر میں پانچویں صدی کے شیولنگ سے کیا جا سکتا ہے اور اس کی شکل و ساخت اس ملتی جلتی ہے۔
مقالے کے آخر میں محققین اس بات پر متفق پائے گئے کہ یہ مندر 1800 میں سکھ دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جب کہ اس میں موجود شیولنگ ساتویں صدی سے نویں صدی کے درمیان ترک کاریگروں نے نہایت مہارت سے بنایا۔
درشن لال کے مطابق ’جس طرح مسلمانوں کے لیے حجر اسود مقدس ہے تو ہندؤں کے لیے یہ پتھر مقدس ہے اور یہاں لوگ منتیں مانگنے آتے ہیں اور اسی شیولنگ پر دودھ، دہی یا پانی ڈالتے ہیں۔‘

بھارت پاکستان بنگلہ دیش برما انڈونیشیا ملیشیا کے علاقوں میں قدیم زمانے سے آباد قوم دراصل قوم نوح ہی تھی اور سناتن دھرمی ھندو عقیدے مطابق ھندو قوم ایک ایشور کی پوجا ارچنا کیا کرتی تھی اور ان کے اور ایشور کے بیچ ایشور کے پیغام کو انسانوں تک لانے والے دودھ یا رسول یا ایمبیسڈر کو سناتن دھرمی ھندو رشی منی “منو” (حضرت نوح) کی حیثیت جانتے ہیں، اگر کسی سناتن دھرمی پنڈت سےپوچھا جائے کہ منو کون ہیں؟ تو وہ صاف صاف کہتے پائے جاتے ہیں کہ منو ایشور کے دودھ یا رسول تھے

ان کے زمانے میں بہت بڑاپرلئے،سمندری طوفان آیا تھا جس میں پورا عالم ڈوب گیا تھا، تب صرف منو کی سکھشا مطابق ایشور کی پوجا ارچنا کرنے والے ہی منو کی بنائی کشتی میں بیٹھ کر، اس پرلئے سے زندہ بچ گئے تھے۔ اور قرآن میں طوفان نوح کی ابتداء تنور سے شروع ہونے کی بات جو بتائی گئی ہے اگر عالم کے نقشہ پر تنور علاقہ تلاش کرتے ہیں تو جنوب بھارت کے کیرالہ میں ہی ہزاروں سال پرانا تنور علاقہ پایا جاتا ہے اور گجرات کے بعض علاقوں میں کافی لمبی طویل ترین قبریں یا تربتیں پائی جاتی ہیں

جن کے بارے میں حضرت نوح علیہ کی بیٹوں یا ان کی آل کی قبر بتایا جاتا ہے۔ اور سناتن دھرم کی تاریخ کم و بیش پچاس ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے اور ان کے پاس موجود مختلف آسمانی ویدگرنتھ کے بارے میں بعض مورخین، اسے قرآن مجید میں ذکر کردہ صحوف اولی یا زبرالاولین بھی کہتے ہیں۔اور ہمارے اسلامی عقیدے مطابق، عالم کے ہر حصہ ارض پر ہرقوم و قبائل میں انبیاء علہہ السلام کا نزول ہوا تھا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام کے ظہور کا بتایا جاتا ہے، جس میں چند کے بارے میں قرآن مجید و احادیث کے علم سے آگہی ہوتی ہے اور انسانی تاریخ مرتب ہونے،

شروع ہوئے کچھ سو ہزار سال پہلے کے واقعات کا تذکرہ تو تاریخ میں ملتا ہے، لیکن ھندو عقیدے مطابق پچاس ہزار سال قبل کے نبیوں کے واقعات کو گوش درگوش زمانہ قدیم سے، روایت در روایت نقل کرتے کراتے، بہت سی متوقع تبدیلیوں کے ہونے کو عقل سلیم بھی قبول کرتی ہے اور عام خیال یہی ہے زمانہ قدیم کے حضرت نوح علیہ السلام وقت کے یا ان سے قبل حضرت آدم علیہ السلام دور کے انبیاء کرام کے بتائے،

فرشتوں، جنات و شیاطین کے، گوش گوش در گوش بتائے واقعات و روایات ہی پر، بعد کے لوگوں نے مختلف دیوی دیوتاؤں کی شبیہ و مورتیاں تیار کرتے ہوئے، تعظیما” انہیں پوجنا شروع کیا ہوگا۔جن کی اصلاح کے لئے آدم ثانی مشہور حضرت نوح علیہ السلام کا ظہور ہوا۔اس وقت انکی قوم مختلف دیوی دیوتاؤں کی پوجا ارچنا کیا کرتی تھی حضرت نوح علیہ السلام کی محنت سے جو امتی، ایک خدا وحدہ لاشریک کی بغیر مورت پوجا ارچنا کرنے لگے انہی کی باقیات سناتن دھرمی ھندو آج بھی،موجودہ مورتی پوجا کے خلاف ایک ایشور کی بغیر مورتی پوجا کے قائل پائے جاتے ہیں جو اصلا” منو وادی ھندو دھرم ماننے والے ہیں

تصور کیا جائے انسانی تاریخ رقمطراز ہونے شروع ہوئے دور میں آئے اسلام دھرم کے ماننے والے ہم مسلمانوں نے، اپنے رسول و خاتم الانبیاء محمد مصطفیﷺ کے بار بار، مکرر ہمیں لاتشرک باللہ (اللہ کی ذات میں کسی کو شریک مت کرو) سے ڈرانے اور روکنے کے باوجود،آج کے ہم مسلمانوں نے، اپنے نبی رحمت العالمین کی تعلیمات کے خلاف مختلف حیلوں بہانوں سے،ھندوانا عقیدے، جتنے کنکر اتنے شنکر والے نظریات ہی کو وحدة الوجود کے گمراہ کن عقیدے اور عرش معلی پر مستوی رب دو جہاں کو،

عالم کے ہر حصہ ہر ذرے میں موجودہ ہونے جیسے گمراہ کن عقیدے میں ڈھال کر، عشق رسول و عشق بزرگان دین ہی کے بہانے، موجود دور کے اسلامی تعلیمات مخالف قبر پرستی کو، دین حنیف کا حصہ کے طور رائج،کیا نہیں کیا ہے؟ پھر کیوں کر بقول ھندو برادران کے پچاس ہزار سال قبل کے دین منو یا دین حضرت نوح علیہ السلام کے امتی، یہ ھندو قوم ، اپنے دیوی دیوتاؤں کی محبت آستھا میں مختلف فرشتوں کی تخیلاتی مورتیوں کو اپنے دیوی دیوتاؤں کا روپ دئیے تبرکا” پوجا ارچنا کرتے ہیں تو ہم انہیں مشرک اور لادین کہتے ہوئے

ان سے نفرت کیوں کر کرسکتے ہیں؟ جبکہ حج الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے،عالم بھر پھیل کر تاقیامت والی انسانیت تک، دین اسلام کی دعوت عام کرنے کا نبوی فریضہ خاتم الانبئاء سرور کونین محمد مجتبی ﷺ نے ہمیں جو ذمہ داری تفویض کی تھی، کیاہم نے اب تک اسے پورا کیا ہے؟ یا کررہے ہیں؟ آج کے ہم مسلمان خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں۔

ہم ان آل قوم نوح علیہ السلام کو اپنے پاس موجود آسمانی کتاب قرآن مجید کی کسوٹی پر ان ھندو برادران کے پاس موجود انکے اپنے آسمانی وید گرنتھ کہنے والے، اشلوکوں کو، گھس گھس کر، قرآن کریم کی آیات سے موازنہ کرتےہوئے، مشترک پیغام ہی کے توسط سے، ہم نے دعوت اسلام برادران اسلام تک پہنچایا ہوتا تو آج بھارت میں پنپ رہی مسلم مخالفت اتنی شدت اختیار نہیں کی ہوتی۔ ہم نے اپنے نبیوں والی دعوت اسلامی برادران وطن تک خود پہنچانے کے بچائے، اپنے طور دین اسلام ھندو برادران تک پورے دلائل کے ساتھ پہنچانے والے اور انہیں مائل اسلام کرنے والے،ایک دنیادار طبی ڈاکٹر،ذاکر نائیک کے

خلاف، دشمن اسلام سنگھی طاقتوں سے ساز باز کرتے ہوئے، انکے خلاف کاروائی کر، انہیں بھارت چھوڑ انڈونیشیا مستقل سکونت اختیار کرنے پر محبور کیا ہےدعوت اسلام الی الکفار کی ہمآری لغزشوں کا نتیجہ ہے کہ سناتن ھندو دھرم کی اصلیت سے ناآشنا یہ برادران وطن انکے اپنے مذہبی وید گرنتھ میں،اشاروں کنایوں میں اس عالم کے آخری دور میں، اسلام دھرم کے عالم میں چھا جانے والے اشاروں سے پریشان،

اپنی تمام تر قوت سے اسلام دھرم کی بیج کنی کی کوشش میں لگے ہوئے ہم انہیں پاتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ قدرت کے فیصلے تو ہوکر ہی رہتے ہیں۔ اور برادران وطن کے وید گرنتھ ہوں یا مسیحیت یہودیت اسلام دھرم کے بائبل زبور و قرآنی احکام، بعض انسانی تغیرات سے پرے، سب کے سب، آسمانی خدا وحدہ و لاشریک لہ کے

احکام ہی ہیں۔اور ان کتب آسمانی میں پیشین گوئی کئے مطابق ،اس دنیوی زندگی کے اختتام تک ان آسمانی مذاہب کے آخری ورشن اسلام دھرم کو عالم میں غالب آنا ہی ہے۔اسلام دھرم کے عالم میں غالب آنا بھارت کے ھبدو برادران کے اسلام دھرم قبول کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ برادران وطن اپنے آستھتؤ کو بچانے کے لئے ہم۔مسلمانوں کے خلاف پوری شدت سے سرگرم عمل نظر آتے ہیں

سعودی عرب کے مشرقی علاقے الاحساء ھفوف میں کم و بیش پچاس ہزار سال وقوع پذیر ہوئے طوفان نوح علیہ السلام کی نشانی کے، جبل غارہ یعنی ٹھنڈا پہاڑ، ایک بہت ہی مشہور سیاحتی مقام ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ طوفان نوح کے وقت جب کشتی نوح کے علاوہ تمام عالم سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اور کب تک ڈوبا رہا اس کے بارے بے شک اللہ رب العزت کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے۔ تاریخ کی

کتابوں کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ بتدریج کم ہوتے اور نہایت تیزی سے بہتے پانی سے پہاڑی پھتروں ہر سو شیولنگ نما پھتر کٹ کر باقی رہ گئے ہیں۔ جبل غارہ پہاڑی پر بنے لاتعداد ایسے شیولنگ نما پھتروں کہ بناوٹ سے اسے کوئی ھندو برادران کا مذہبی شہر قرار دے نہیں سکتا۔لیکن فی زمانہ بھارت میں آرایس ایس بے جے پی کار ھبدو نظریاتی شدت پسند مودی یوگی حکومت کیریر سرہرستی، معشیتی و معاشرتی طور حکومت چلانے میں یکسر ناکام سنگھی حکومت، برادران وطن کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے،

ایک طرف مسلم مخالف جذبات بھڑکاتے ایسے غیر ضروری موضوعات میں بھارت واسیوں کو الجھائے، اپنی حکومتی لغزشوں سے صرف نظر کئے عوام پر سہنی حکومتی گرفت مضبوط قائم رکھنے کی کوششوں میں ہی ویسٹ و مشغول ہے۔ ایسے میں پڑوسی ملک سری لنکا کے راجا پکشا مسلم دشمن حکومت کی

ناعاقبت اندیش معشیتی پالیسیز سے سری لنکا میں ان دنوں پھیلی سراسیمگی و عوامی انتشار سے اگر بھارتیہ اکثریتی ھندو عوام وقت رہتے،ہوش کے ناخن نہ لیں اور ہزاروں سال سے محبت اخوت بھائی چارگی سے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیبی اقدار کے تحت رہتے آئے ہم ھندو مسلمانوں کو لڑواتے اور ہم۔پر حکومت کرتے ان سنگھی حکمرانوں کے خلاف کھڑے نہیں ہونگے یو عین ممکن ہے بہت جلد سری لنکا کی طرح بھارت کے عوام کو اپنی اس سنگھی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے سڑکوں پرنکلنا پڑیگا۔

عقل و فہم و ادراک رکھنے والے برادران وطن، ذرا تدبر سے کام لیں اور سوچیں ھندو عقیدے مطابق اب عالم کے چار مختلف دیشوں میں پائے گئے متبرک چار بڑے شیولنگ، کالے پھتروں سے بنے، آپس میں کافی حد تک مشابہ،ایک بھی سوراخ کے بغیر والے شیو لنگ ہیں۔ گیان واپی مسجد کے وضو کے تالاب میں صدیوں سے نسب سفید سنگ مر مر سے بنا یہ دیوھیکل فوارہ متعدد اوپر سے نیچے آرپار سوراخ پر مشتمل زمانے قدیم کا پانی کا فوارہ ہے۔ یہ کسی بھی صورت عالم کے انیک حصوں میں پائے جانے والے،

شیولنگ سے مماثلت بھی نہیں رکھتا ہے۔بقول ان اندھ بھگتوں کے، 1669 اورنگ عالمگیر علیہ الرحمہ کے دور حکومت میں، اگر مسلم بادشاہ وقت نے، ھندوؤں کے شیو مندر کو توڑ کر گیان واپی مسجد، گر تعمیر کی بھی ہوتی تو، کیا مغل شہنشاء یا اس کے مصاحب و وزراء میں سے کسی نے بھی، اس وقت کے شیو لنگ کو عالیشان بننے والی مسجد کے وضو خانے میں محفوظ رکھا ہوتا؟ اور تو اور اس کے 107 سال بعد، سن 1776 میں ھندومہارانی اہلیہ بائی ہولکر نے، اس کاشی وشوناتھ مندر کو جب دوبارہ بنوایا تھا تو کیا

اس وقت ھندو ویر سمراٹوں نے، گیان واپی مسجد کے تالاب سے ھندوؤں کے متبرک شیو لنک کو نکال کر، دوبارہ کاشی وشوناتھ مندر میں نصب کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ بات کسی عقل و فہم وادراک رکھنے والے شخص سےہضم ہوتی ہے؟ لیکن آج کا اعلی تعلیم یافتہ یہ سنگھ بھگت طبقہ،اپنے کثرت آبادی و حکومتی اقتدار کے نشے میں، تاریخی حقائق کے برخلاف شب کی تاریکیوں کو، دن کا اجالا اور دن کے اجالے کو شب کی تاریکی ثابت کرنے پر لگے ہوں تو، جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے اس اوصول کے مطابق ہی سب کچھ ہونے دیا جانا چاہئیے

اس کے لئے چمنستان بھارت کا، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم ہی بدنام و رسوا کیوں نہ ہوتا ہو ۔ان اندھ بھگتوں کو دیش واسیوں کا مذہبی استحصال کر، انہیں اقتدار کے مزے اڑانا ہی اہم مقصد ہوتا ہے۔ ایسے میں سنگھی ذہنی اپچ مفروضہ کہانی گڑھتے ہوئے، عقل تسلیم نہ کئے جانے والے مفروضہ پر، آزاد بھارت کی پارلیمنٹ میں پاس شدہ قانون ارضی،ما قبل آزادی ھند کے مذہبی مقامات کی حیثیت و حقیقت کی بحالی کی

ضمانت و دیش کی عدلیہ عالیہ کے، اسی نوعیت کے بابری مسجد راممندر تبازع پر دئیے اپنے فیصلے میں پیش کردہ تحفظات سے پرے،ہزاروں سالا مختلف المذہبی سیکیولر اثاث پر مبنی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ھندو مسلمانوں کو لڑواتے ہوئے، بھارت کو کمزور کرتے سنگھی ہالیسئز سے برات کا اظہار ہی دیش کی ترقی آنٹی کی ضامن ہے۔ اپنے سات سالا سنگھی اقتدار میں، معشیتی معاشرتی حکومت چلانے میں ناکام ان سنگھی مودی یوگی حکمرانوں کو،ھندو مسلم منافرت پھیلائے،کسی بھی صورت انہیں 2023 کئی ریاستی انتخابات اور 2024 مرکزی انتخابات جیتنے کا موقع نہیں دینا ہی چمنستان بھارت کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے کا ایک ماتر وکلپ یا راستہ بچتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ

وضوخانہ کا فوارہ یا ھندو برادران کا شیولنک؟گیان واپی مسجد کے وضو خانہ کے تالاب میں، صدیوں سے رکھے،مختلف سوراغ والے دیوھیکل پھتر سے بنے، فوارے ہی کو، اپنا مذہبی شیولنگ قراردینےوالےاندھ بھگتوں کو،کیا کہا جائے؟ان بھگت عموما مذہبی آستھا سے سرشار جاہل ان پڑھ ہوا کرتےہیں، لیکن اعلی تعلیم یافتہ سروے انجینیر، تاریخ دان، قانون و دستور ملکی کے ماہرین اعلی تعلیم یافتگان، و سول سوسائیٹی انتظامیہ بھی، جانتے بوجھتے حقائق سے پرے، ایک خاص مقصد کے ساتھ، مسلمانوں کی،

تمام تر قانونی ملکیتی کاغذات والی 500 سوسالہ تاریخی بابری مسجد کو، ہزاروں سالہ ھندو مسلم بھارتیہ گنگاجمنی سبھیتہ کے خلاف اور آزاد بھارت کے دستور و قانون کی دھجیاں اڑاتے،ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم کے شاندار رام مندر تعمیر کرنے، شہید بابری مسجد کی جگہ،قاتل بابری مسجد دہشت گرد ٹولے ہی کے حوالےکئے، دیش کی عدلیہ عالیہ کے ناعاقبت اندیش فیصلے جیسے ہی، تاریخی گیان واپی مسجد کے سلسلے میں آنکھوں کے اندھے بھارتیہ قانون سے، گیان واپی مسجد کو ہم مسلمانوں سےزبردستی چھینے جاتے، متوقع عدلیہ فیصلے ہی کی امید کی جاتی ہے۔ ابن بھٹکلی

مذہبی آستھا کا مذاق اڑانے کا موقع دیتے ہوئے، ہزاروں سالہ آسمانی ھندو مذہب کو بدنام تو مت کیجئےکیا لیچی کے اس بیچ کو اس لئے شیو لنگ قرار دیا جائیگا کہ لیچی کا بیچ شیو لنگ کی طرح دکھتا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں