معاشی غلامی سے نجات کب ملے گی
دنیا میں وہی قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور اپنا لوہا منوا سکتی ہے کہ جس کی معیشت مضبوط اور عوام بھی ہر لحاظ سے طاقتور و خوشحال ہوں، لیکن ہماری شروع سے مجبوری رہی ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی معاشی غلامی کا شکار ہو گئے ہیں ،ہمیں کسی غیر نے زبردستی غلام نہیں بنایا ،بلکہ ہمار ی سیاسی قیادت نے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں پھنسیا ہے ،اس کی وجہ سے ہر آنے والا دن مزید پستی میں دھکیلتا ہی چلا جارہا ہے، پاکستان کو آئی ایم ایف نے قرضے دے کر اس قدر مفلوج کر دیا ہے
کہ اب اس کی معیشت بغیر قرضے کے چلنے سے قاصر ہے ،اس وقت نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہمیں قرض پرسود کی رقم ادا کرنے کیلئے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے اور قرض دینے والا اپنی کڑی شرائط پر ہمیں قرض دے رہا ہے،جبکہ اس قرض کے بوجھ تلے دبے عوام جا ننا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس معاشی غلامی سے نجات کب ملے گی ؟
یہ امر واضح ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح دعوئیدار تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے نہ بیک نہیں مانگے گے ، بلکہ کشکول توڑیں گے ، تاہم یہ حکومت بھی آئی ایم ایف سے پیچھا نہ چھڑا سکی اور قرض لینے کیلئے اُن کے در پر ماتھا ٹیکنے پہنچ گئی ،یہ ابھی قرض کی پہلی قسط کا اثر ہے کہ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے،روپے کی قیمت روز بروز گرتی جا رہی ہے،
آئے روز پٹرلیم مصنوعات ،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، حکومت اپنی مجبور ی بتا رہی ہے کہ اس کے پاس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے،عوام کا بڑھتی مہنگائی سے برا حال ہے،اس میں سونے پر سہاگہ کہ حکومت مزید پٹرولیم اور بجلی کے نرخ بڑھانے کا عندیہ دیے رہی ہے۔
عوام ابھی پٹرول کے نرخ یکدم بڑھا دینے کے منفی اثرات کا سامنا ہی کررہے تھے کہ حکومت نے ایک بار پھر خبردار کرنا شروع کردیاہے
ہیںکہ جس کی وجہ سے مسئلہ مہنگائی سے آگے بڑھ کر ذرائع آمدنی میں کمی کا انتہائی خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے، ایک طرف اخراجات میں اضافہ دوسری طرف آمدنی میں کمی، جس کی وجہ سے اقتصادی بحران کم ہو نے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔حکومتی اتحاد تماتر تجربہ کاری کے باوجود معاشی بحران پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہا ہے ،اس کا اندازہ ہر طبقہ فکر کے سراپہ احتجاج ہونے سے بھی لگایا جاسکتا ہے
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں کو مزید بڑھایا تو اس سے برآمدات مزید بتدریج کم ہونا شروع ہوجائیں گی اور ملک دیوالیہ ہو جائے گا،حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانے یا صنعت کاروں کو رلیف دیے کر برآمدات بڑھائے ،اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے ۔
حکومت آئی ایم ایف کے قرض کی قسط کی وصولی کے لیے آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت جو اقدامات کررہی ہے، اس کی وجہ سے آئندہ قرض کی واپسی میں آسانی کی بجائے مزید مشکلات پیدا ہوں گی، کیونکہ پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ زرمبادلہ کا بحران ہے،درآمد و برآمد میں عدم توازن کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے،
پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کا خطرہ اسی وجہ سے بڑھتا جارہاہے کہ پاکستان کے پاس ڈالر کی صورت میں زرمبادلہ نہیں ہوگا تو قرضوں کی قسط کی ادائیگی اور درآمدات کی قیمت ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا،اس کا حل تلاش کرنے کی بجائے حکومت الزام تراشیوں میں لگی ہے ۔
ہر دور حکومت میں بحرانوں کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالی جاتی رہی ہے ،مووجودہ حکومت بھی درپیش بحرانوں کا حل تلاش کرنے کی بجائے سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالنے میں لگی ہوئی ہے ،
کہ آئی ایم ایف کمزور ممالک کی ایک بڑی تعداد کو قرض مہیا کرتا ہے، مگر ان میں سے کسی ایک ملک کی معیشت بھی صحت مند، مضبوط اور توانا نہیں ہو سکی ہے، اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے طاقت ور بنانا نہیں، بلکہ انہیں اپنا غلام بنانا ہے۔
عوام آئی ایم ایف سمیت ہرغلامانہ سوچ سے نجات چاہتے ہیں ،مگر حکمران اپنے مفاد کیلئے عوام کو اغیارکے غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں،ہر دور حکومت میں ہمارے معاملات پر آئی ایم ایف کا مکمل کنٹرول رہاہے اور اب بھی قرض دے کر ہماری مکمل نگرانی کر رہا ہے ،وہ ہی بتاتا ہے کہ قرضہ کہاں خرچ کرنا ہے اور عوام پر مزید کتنا ٹیکس لگانا اور مہنگائی کا بوجھ بڑھانا ہے، وہ جو کہتے تھے
کشکول توڑ دیں گے، لیکن یہ حسب روایت بڑے گداگر ہی نکلے ہیں،قوم ایک بار پھرایسی نیک صالح مخلص قیادت کے منتظر ہیں کہ جو ملک کو قرضوں سے نجات دلا ئے، جو آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا دلائے اور عوام کو حقیقی خوشحال کی راہ پر گامزن کرے،یہ بظاہر مشکل ضرور نظر آتا ہے ،مگر ناممکن نہیں ہے۔