اتحادی حکومت نے نئے مالی سال کا جو میزانیہ پیش کیا ہے ،اس میں حکومت کی جانب سے کوئی ایسے نئے اقدامات 46

جب راج کرے گی خلق خدا

جب راج کرے گی خلق خدا

ملک میں ایک طرف توانائی کا بحران بتدریج بڑھتا رہا ہیتو دوسری جانب ملکی معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے،جبکہ موجودہ مخلوط حکومت اپنے اقتدار کے آغاز سے ہی عوامی مسائل کے حل کے معاملہ میں بے بس نظر آرہی ہے، اتحادی جماعتوں کے اقتدار میں آنے پر عوامی حلقوں میں تو یہی تاثر قائم ہوا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف متحد ہونیوالی اپوزیشن قیادتوں کے پاس عوامی مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل فارمولا ہوگا، مگر ان جماعتوں کے اقتدار میں آتے ہی سارا تاثر کافور ہو گیاہے،

اس صورتحال میں مخلوط حکومت کے پاس دو ہی راستے بچے ہیںکہ اقتدار چھوڑ کر انتخابات کے راستے پر آجائے یا ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے مشکل فیصلے کرے، حکومت اقتدار چھوڑنے کی بجائے عوام مخالف فیصلے کرنے کو تر جیح دیئے رہی ہے ،لیکن یہ عوام مخالف فیصلے ہی عوامی ردعمل کی بنیاد پر حکومت کے گلے پڑ سکتے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ حکومتی اتحادیوں نے طویل مشاورت کے بعد اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری کرنے اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،

تاہم حکومت کو اب آئی ایم ایف کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھ کر مشکل اور غیرمقبول فیصلے بھی کرنا ہوں گے ، حکومتی اتحادیوں کو گمان ہے کہ عوام کی چمڑی ادھیڑ کر، ان کا گلا گھونٹ کر اور زندہ قبر میں اْتار کر معیشت ٹھیک ہو جائے گی ،لیکن کیا معیشت عوام کی معاشی حالت سے الگ کوئی اور چیز ہے؟ ہاں! سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہے، اس نظام میں معیشت عوام سے الگ کوئی اور ہی مخلوق ہے،

اس نظام کا ہدف اور مقصد اول تین ہزار ارب کا سود ہے کہ جس کی ادائیگی آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی اداروں اور بینکوںکو کرنی ہے، تاکہ آگے مزید سودی قرض مل سکے،اس کے لیے انہیں اپنے لوگوں کو بجھتے تنوروں کی راکھ میں دفن کرنا پڑے ، دریغ نہیں کریں گے۔اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت اقردار میں رہنے کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہے ،اس لیے ہی عوام مخالف فیصلوں کیلئے مشکل فیصلوںکی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے،

یہ فیصلے ان معنوں میں مشکل نہیں ہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالنا حکمرانوں کے لیے کوئی مشکل اور تکلیف دہ ہے،بلکہ اس لیے مشکل ہے کہ ڈیڑھ سال کے اقتدار سے اگلے الیکشن میں کامیابی کے ذریعے ان کا تسلسل چاہتے ہیں،اس کی راہ میں عوامی غم وغصہ رکاوٹ بن سکتا ہے، ایک طرف تواتر سے مشکل فیصلے کی تکرار کی جارہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عملدر آمد بھی ہو رہا ہے ،

کیا ان حکمرانوں میں اتنی ہمت ہے کہ یہ عوام کے مفاد میں کوئی مشکل فیصلے کرسکیں؟ کیااپنے وزراء دیگر عہدیداروں کو مفت پٹرول اور بجلی کی فراہمی کی بندش کا مشکل فیصلہ کرسکتے ہیں؟ سرمایہ داروں کو سیکڑوں ارب روپے کی سبسڈی کے خاتمے کا مشکل فیصلہ کرسکتے ہیں؟ملک بھر کے مختلف محکموں کے افسران کی عیاشیاں جاری ہیں، عوام کے ٹیکسوں پر اللے تللوں کی عیاشیوں کا خاتمہ انتہائی مشکل فیصلہ ہے،اس حکومت میں اتنی جرأت نہیں کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کر سکے ،

موجودہ حکومت کے دانت دکھانے اور کھانے کے بالکل مختلف ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اتحادی حکومت جنکے سہارے کھڑی ہے ،ان پر کوئی ضرب لگائے گی نہ ان کے خلاف کوئی مشکل فیصلہ کرے گی ،حکومت کیلئے عوام پر بوجھ ڈالنا، عوام کی چمڑی ادھیڑنا مشکل فیصلہ نہیں ہیں،اس لیے عوام مخالف فیصلے کرکے عوام کی ہمدردی کا ڈرامہ دکھایا جاتا ہے ،مفتاح اسماعیل کا بیان کہ وزیراعظم شہباز شریف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر دستخط کرتے ہوئے رو پڑے محض فلاپ تماشیکے

علاوہ کچھ نہیں تھا، اگرانہیں عوام کا اتنا ہی درد ہے تو عوام کی چمڑی ادھیڑنے کے علاوہ اپنے حواریوں کے خلاف فیصلے کرکے دکھائیں، لیکن یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے ،کیو نکہ اس سے اقتدار بھی جائے گا اور آنکھوں سے حقیقی آنسو بھی رواں ہو جائیں گے جو صرف مفتاح اسماعیل کو ہی نہیں سب کو سر عام نظر آئیں گے، یہ حکمران طبقہ کبھی حب الوطنی کے جذبے کا شکار ہو کر اپنے مفادات کے خلاف
اقدامات اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے،یہ ملک دیوالیہ ہو جائے، انہیں کیا فرق پڑے گا، اس ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہوجائیں گے، لیکن اس ملک کے دیوالیہ ہونے کے نتائج عوام کو ہی بھگتنا پڑیں گے ، ایک عوام اور غریب طبقات ہیں کہ جو سب کے مفادات کا چارہ ہیں ،مگر ان کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں، سب عوام کو جھوٹی کہانیوں، تاریخ کے قصوں، ملکی ترقی کے افسانوں سے بے وقوف بنارہے ہیں،

عوام کے صبر کا فیوز بھی اڑ چکا ہے، عوام پوچھ رہے ہیں کہ بجلی کدھر گئی ہے ،مہنگائی سے کب نجات ملے گی، لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی جواب نہیں آرہاِ ہے، اس بگڑتی صورت حال میںلگ رہا ہے کہ و قت قریب آپہنچا ہے کہ جب تاج اچھالے جائیں گے ،تخت گرائے جائیں گے اورراج کرے گی خلق خد،جب راج کرے گی خلق خدا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں