40

ضم شدہ ضلع کی محرومیاں

 ضم شدہ ضلع کی محرومیاں

تحریر۔ نثاربیٹنی

جنوبی اضلاع کا علاقہ سب ڈویژن بیٹنی جوکہ ہر لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہے لیکن اگر اس کے تعلیمی معیار اور خواندگی پر نظر ڈالیں تو یہاں پر بہت سارے سرکاری سکول موجود ہیں جنکی کل تعداد 112 ہے بشمول 6 کمیونٹی سینٹر، ان میں57 سکول طالبات(بچیوں) کے لیے اور 55 سکول طلباء(بچوں) کے لیے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ سکول صرف بلڈنگ اور کلاس فور تک محدود ہیں، معلومات کے مطابق ان میں زیادہ سے زیادہ 10 مردانہ سکول فعال ہوں گے جبکہ خوفناک پہلو یہ ہے کہ باقی ماندہ سکول نہ حکومت آباد کرسکتے ہیں

اور نہ وہ مقامی لوگ جو ان کو اباد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہاں کے ملکان اور بااثر افراد ان سکولوں کی عمارات پر قابض ہیں اور وہ ان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں زنانہ تعلیم کی شرح 0% اور مردانہ کی شرح 38% ہے، 2004 سے اسی علاقہ کے کچھ افراد نے اس پر کام شروع کیا جن میں ایک نام علاقہ کے سوشل ایکٹیوسٹ آدم خان بیٹنی کا بھی ہے جس نے گھر گھر اور گاؤں گاؤں سروے کیا

اور والدین کو قائل کیا کہ وہ اپنی چھوٹی بچیوں کو سکولوں میں بھیجیں تاکہ خواتین کی شرح خواندگی بڑھ سکے، پہلے پہل آدم خان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب کچھ دیگر افراد بھی انکے مئوقف سے متفق ہوگیے ہیں اور اس کام کے لیے سنجیدہ ہوچکے ہیں، سروے کے مطابق سب ڈویژن بیٹنی اور کوٹکہ جات میں تقریباََ 16 ہزار بچیاں(طالبات) ایسی ہیں جن کی عمر تعلیم کی ہے لیکن وہ تعلیم حاصل نہیں کرتیں اور یہ شرح سالانہ تقریباََ 500 کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے،

مقامی سطح پر بچیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں آدم خان نے سرورے میں بتایا کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سب ڈویژن بیٹنی ناخواندگی کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے اور بچیوں کی تعلیم کی شرح خطرناک حد تک گرتا جارہا ہے، تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے آدم خان نے 2020 سے ایک درخت کے نیچے ایک سکول کھولا اور ایک پرائیویٹ ٹیچر رکھا، آغاز میں 4 / 5 بچیوں سے بسم اللہ کی اور 40 بچیوں تک بڑی تیزی پہنچا دیا، انکی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے

کہ یہ لوگ اب قبائل ازم سے نکلنا چاہتے ہیں اور قلم کی نوک سے ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بچیوں کے لیے تعلیم کا سازگار ماحول پیدا کیا جائے اگر اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کا حل ڈھونڈیں تو یہ پسماندگی دو طرح سے ختم ہوسکتی ہے
الف۔ پرائیویٹ گرلز سکول جو سب ڈویژن بیٹنی میں 4 سکول انتہائی ضروری ہیں جو اوت خیل، مستی خیل، ورگاڑی یا تاجبی خیل چیگہ لیار پاخیل میں قائم کیے جائیں،ب۔ سرکاری سکولوں کی ابادکاری کی جائے لیکن اس کیلئے جدید طرز تعلیم ضروری ہے اور حکومت کی ترجیح لازمی ہے، سب ڈویژن بیٹنی میں تعلیم کے بعد دوسری اہم پسماندگی اس علاقے کی سڑکیں ہیں جن کی حالت انتہائی خراب ہے، تجوڑی تا شادی خیل روڈ جس کی لمبائی 32 کلومیٹر ہے مستی خیل تا ورگاڑی جس کی لمبائی 15 کلومیٹر ہے

اسی طرح سب سے اہم گنڈی چوک تا ژوب روڈ جوکہ سب ڈویژن بیٹنی میں کاروبار کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوتا ہے، ان سڑکوں کی جدید اور ہنگامی بنیادوں پر تعمیر بہت ضروری ہے مناسب سڑکیں نا ہونے سے ناصرف یہاں کاروبار کا حجم نا ہونے کے برابر ہے بلکہ مریضوں کو بروقت قریبی علاقوں بنوں، لکی مروت تک لے کر جانا بھی جان جوکھوں کا کام ہے،اسی طرح سب ڈویژن بیٹنی میں صحت کے حوالے سے بات کی جائے

تو سب ڈویژن بیٹنی میں 3 بی ایچ یوز اور متعدد سول ڈسپنسریاں موجود ہیں لیکن سارے غیر فعال ہیں اور پورے علاقے میں کوئی بھی کیٹیگری ڈی ہسپتال موجود نہیں جو 21ویں صدی میں انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ کے مترادف ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سب ڈویژن بیٹنی میں تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر بھرپور توجہ دی جائے اور اس علاقہ میں عشروں سے براجمان محرومیوں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ یہ علاقہ بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں