کیا ریاست مدینہ منورہ کا تخیل قابل عمل ہے؟
نقاش نائطی
۔ +966562677707
کراچی کے کؤرنگی محلہ کے کچھ رہائشی چاہتے تھے کہ ان کے محلہ کو کچھ اس طرز ڈھالا جائے کہ جنہیں دیکھ لوگ اسے ریاست مدینہ ماڈل اسٹریٹ کہنے لگیں اپنے وقت کا بدنام زمانہ گندہ ترین مسلم علاقہ ہمہ وقت شور غوغہ لڑائی جھگڑے، ہر سو گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے، سیوریج کے گندے پانی سے، اپنا دامن بچاتے کنارے کنارے سے چلتے مرد و نساء، ہر بلڈنگ کی بالکنیوں میں سکھائے،
ایسے تیسے کپڑے، بلڈنگوں سے لٹکتی کیبل و رسیاں،زمانے سے رنگ وروغن سے نا آشنا کائی زد دیواریں،جو ایک زمانے تک ہولناک منظر پیش کرتی تھیں، آج واقعی ایسی کیا تبدیلی اس محلہ میں آگئی کہ مرد و نساء اس محلہ کے مکین ہونے پر فخر کرتے پائے جاتے ہیں،اس محلہ کی ہر در و دیوار مختلف خوب رو رنگ پاشی کئے دلکش لگنے لگے ہیں۔
دراصل محلے کے کچھ نوجوانوں نے،بچپن مدرسے میں کتابوں میں پڑھے ریاست مدینہ کی دلکشی کو ایک سراب جو تصور کرتے تھا اور عمران خان کے ملک وطن کو ریاست مدینہ ماڈل بنانے کے تخیل کو، صرف مذاق میں لیتے تھے، اچانک ایک مرتبہ مندرجہ ذیل شعر پر عمل پیرا، خود سے، اپنے محلہ کو ریاست مدینہ محلہ کی تمثیل بنانے کا تہیہ کیا۔ اور کوششیں شروع کیں اور ایک قلیل عرصہ میں وہ خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوگیا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اور محلے کا ہر فرد محلے کو صاف ستھرا رکھنے کی اپنے طور کوشش کرے گا۔ اور ہر ماہ ایک مخصوص دن اسی طرز ون ڈش پارٹی منعقد ہوا کرے گی اور اس ہر ماہی نشست میں، محلے کے صاف ستھرائی و ترقیات کے منصوبوں پر غور و خوص ہوگا۔ آپسی اختلافات افہام و تفہیم سے حل کئے جانے کی کوششیں ہونگی اور ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے گا۔ صدق دل سے کئے، آپسی فیصلے اور سعی پیہم کا نتیجہ آج یہ نکلا، اپنے وقت کا گندہ ترین کراچی کؤرنگی کا یہ محلہ،
سکھواتے ہوئے، ان میں اپنے علاقے اپنے شہر کو ریاست مدینہ منورہ طرز تشکیل دینے کا جذبہ کچھ ایسا پیدا کیا گیا کہ روزانہ اپنی صفائی ستھرائی اور مکین محلہ کے آپسی محبت، الفت، بھائی چارگی کے ماحول نے، اس محلہ کو پورے کراچی شہر میں ، آج ریاست مدینہ ماڈل اسٹریٹ مشہور کیا ہوا ہے۔
آج کے اس کلپ کو دیکھنے کے بعد ہمیں کم و بیش سو سوا سو سال قبل کا سقوط خلافت عثمانیہ کے وقت کا وہ واقعہ یاد آتا ہے، جب بارہ تیرہ سو سالہ اسلامی سلطنت کا زوال شروع ہوا تو لینن کا اشتراکی نظام عروج پکڑنے لگا تھا اس وقت مشترکہ ھندو پاک کے علامہ عنایت اللہ مشرقی لینن کے اشتراکی نظام پر اس کے اخلاص سے متاثر جوتے ہوئے اسے مائل اسلام کرنے کی نیت سے، علامہ مشرقی روس پہنچتے ہیں
تو اس کا شاطر دماغ فورا حضرت مولانا علامہ مشرقی کے سامنے کہتا ہے مجھے تسلیم ہے تمہارا پیش کردہ اسلامی نظام کتابی و تفکراتی شکل سے تو بہت اچھا ہے لیکن آج کے اس جدت پسند ترقی پذیر ماحول میں بھی کیا یہ قابل عمل ہے؟ اس کے لئے تین چوتھائی عالم پر 12 سو لمبے سال تک حکومت کرچکے،حصہ ارض میں سے ، کوئی ملک کوئی شہر کوئی خطہ ہی ہمیں ریاست مدینہ کے طرز عمل پیرا گر کوئی ہے
تو ہمیں پیش کرو کہ اس کی حقانیت دیکھ کر، ہم اپنا نظریہ تبدیل کر سکیں۔ عملی طور ریاست مدینہ اسلامی مملکت کی بات جب شرط کے طور سامنے آتی یے تب علامہ مشرقی لاجواب ہو واپس مشترکہ ھند چلے آتے ہیں۔ اسلئے کہ سقوط غرناطہ اسپین و سکوت بغداد کے بعد عالمی یہود و نصاری سازش کنددگان نے اسلامی خلافت سے نپٹنے کا راز معلوم کرلیا تھا اور خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں کے حرم میں، لونڈیوں کی
شکل خوبصورت یہودی نساء کو داخل کرواتے ہوئے، وقت کے حکمران کو ان کے دام الفت کا شکار بناتے ہوئے، اسلامی محبت و عشق کی انتہا تک پہچانے والے، غلو کا شکار انہیں بنائے، عشق رسول ﷺ کے بہانےمختلف شرک و بدعات ان میں رائج کرواتے ہوئے، مسلمانوں میں شروع سے رہے جہادی جذبات سے ماورا انہیں جینے پر مجبور کئے، عالم کے ہر خطے کے مسلمان کو مسلمان رہتے،
جنوب ھند ساحل سمندر سابقہ بارہ سو سال سے آباد آل عرب اہل نائط شہر بھٹکل کے بشمول، مسلم اکثریتی علاقوں کے مکین، کاش اس کراچی کؤرنگی علاقے کے ریاست مدینہ اسٹریٹ سے سیکھ لیں اور اپنے اپنے علاقے کو ریاست مدینہ منورہ طرز ڈھالنے کی کوشش کریں تو قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے بمثل وہ وقت دور نہیں
ہم مسلمان اپنے اخلاق حسنہ اپنی ایمانت داری دیانت داری راست گوئی، لین دین عدل و انصاف سے ہمارے اطراف بسنے والے کفار و مشرکین کو اسلام کی طرف مائل کرسکیں اور اپنے عمل ہی سے دعوت دیں اسلام انہیں پہنچانے والے بنیں۔ وما علینا الا البلاغ