Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے

گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
17 جولائی کو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے 20 میں سے 15 نشستیں حاصل کر کے واضح برتری حاصل کی تو ایوان میں بھی پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو واضح برتری حاصل ہوئی تو کہا جا رہا تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی و ق لیگ کے اتحاد کی حکومت بنے گی اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے، مگر معاملہ اس وقت الٹ گیا، کہتے ہیں نا سیاست بڑی بے رحم ہے جس کی مثال عدالت کے حکم پر 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے ڈپٹی سیکرٹری پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پولنگ کے دوران دیکھنے میں آئی،

ووٹوں کی گنتی ہوئی تو چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے اور حمزہ شہباز شریف کو 179 ووٹ ملے تو جو لوگ میڈیا پر خبر دیکھ رہے تھے وہ یہی سمجھ اور کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے ہیں؟ لیکن پی ٹی آئی اور اس کے حمایتیوں کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے لکھا گیا خط جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیں لہرا کر ایوان کو دکھایا اور پڑھ کر سنایا،

اور چوہدری پرویز الٰہی کو کاسٹ ہونے والے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ جن میں چوہدری پرویز الٰہی کا اپنا ووٹ بھی شامل تھا منہا کر دیئے اور ڈپٹی سپیکر نے تین ووٹوں کی برتری سے حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دے دیا، جبکہ ایوان میں موجود راجہ بشارت نے ڈپٹی سپیکر کو باور کرایا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ کاسٹ کیے گئے ہیں، ڈپٹی سپیکر آپ کو یہ ووٹ مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے،

مگر ڈپٹی سپیکر نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی کے خط کو کوئی اہمیت نہ دی، اور کہا کہ وہ (ڈپٹی سپیکر) جو کچھ کر رہے ہیں، وہ آئین، قانون اور عدالت کے احکامات کی روشنی میں کر رہے ہیں، اس طرح حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ قرار دے کر ڈپٹی سپیکر نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس برخاست کر دیا، جونہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ عوام تک پہنچا تو پی ٹی آئی اور کپتان کے کھلاڑیوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا، اور چوہدری شجاعت اور آصف زرداری کیخلاف شدید نعرہ بازی کی، احتجاج کے دوران مظاہرین نے چوہدری شجاعت اور آصف زرداری کیخلاف جو القابات کہے وہ لکھنا صحافتی نقطہ نظر سے مناسب نہیں؟
ذرائع کہتے ہیں

کہ ضمنی الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو بیٹے کی وزارت اعلیٰ بچانے کیلئے وزیر اعظم باپ نے دھیمے لہجے کے سیاستدان اور (ن) لیگ کے اتحادی آصف علی زرداری کو حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ بچانے کا ٹاسک سونپا، مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے کئی ارکان پنجاب اسمبلی کو وفاداریاں بدلنے کیلئے 25 سے 50 کروڑ روپے تک کی آفریں کروائیں چونکہ موجودہ ارکان اسمبلی ماضی میں وفاداریاں بدلنے والے ارکان اسمبلیز کے حالات دیکھ چکے تھے،

جن کی اکثریت ڈی سیٹ ہونے کے بعد ضمنی الیکشن بھی ہار گئی، اسی تناظر میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے کسی رکن اسمبلی نے وفاداریاں بدلنے کی حامی نہ بھری تو سیاست کے کھلاڑی آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے یکے بعد دیگرے کئی ملاقاتیں کیں،اور آصف زرداری نے چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک حسین کو وفاق میں ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی،

جس پر معاملہ طے پا گیا، اور آصف زرداری چوہدری شجاعت سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کو خط لکھوانے میں کامیاب ہو گئے کہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی بجائے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیں، مگر مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی نے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ تو نہ دیا لیکن ان کا چوہدری پرویز الٰہی کو کاسٹ ہونے والے ووٹ بھی ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے خط کی بنیاد پر مسترد کر دیئے، اور حمزہ شہباز شریف بدستور وزیر اعلیٰ پنجاب قائم رہ گئے۔
چوہدری شجاعت کے خط کی روشنی میں ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی بحران پھر پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ ڈپٹی سپیکر کے فیصلے سے بظاہر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کی حق تلفی ہوئی ہے، کیونکہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ووٹ بھی درست کاسٹ ہوں اور اسے اسمبلی کا کوئی ریٹرننگ آفیسرمسترد کر دے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر ڈپٹی سپیکر نے خط کو بنیاد ہی بنانا تھا تو چوہدری پرویز الٰہی کو الیکشن ہی کیوں لڑنے دیا گیا؟ جب ڈپٹی سپیکر کو خط موصول ہو چکا تھا

تو اسے چاہئے تھا کہ چونکہ پرویز الٰہی کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا تو وہ چوہدری پرویز الٰہی کے کاغذات مسترد کر دیتا تو ووٹنگ سے پہلے سارا عندیہ کھل جاتا، لیکن ڈپٹی سپیکر نے گنتی تک کرنے کے بعد چوہدری شجاعت کا لکھا خط اوپن کیا اور پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی کے خط کو ظاہر نہیں کیا، جو ڈپٹی سپیکر کی بدیانتی کی واضح دلیل ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈپٹی سپیکر عددی برتری کے نتیجہ میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب ڈیکلیئر کرتا، بعد میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت الیکشن کمیشن آف پاکستان یا اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرتی، مگر ڈپٹی سپیکر نے بظاہر خط کی

آڑ میں آئین، قواعد و ضوابط سب کچھ روند کر رکھ دیا۔سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی برتری کی تو ایک خط نے سیاست کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا اور خط کی بنیاد پر 10 ارکان اسمبلی کے ووٹ گنتی میں شامل نہ کر کے حمزہ شہباز شریف کو ڈپٹی سپیکر نے وزیرا علیٰ قرار دے دیا ہے، معاملہ حسب سابق اب دیگر معاملات کی طرح عدالت عالیہ میں ہے، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمدمزاری کی رولنگ کیخلاف پی ٹی آئی اور ق لیگ نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے،

عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں، اب فیصلہ ملک کی سپریم عدالت نے کرنا ہے، ملک بھر کے علاوہ بیرونی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی نظریں عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ وہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو درست قرار دیتے ہیں یا غلط، یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن جس خط کی بنیاد پر

چوہدری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ سے محروم ہوئے وہ کسی غیر نے نہیں ان کے اپنے ہی خونی رشتہ دار برادر نسبتی چوہدری شجاعت حسین نے لکھا تھا۔ سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ چوہدری شجاعت کے خط لکھنے کے عمل نے نا صرف مسلم لیگ (ق) کو گہرے گڑھے میں گرا دیا ہے بلکہ چوہدری ظہور الٰہی و چوہدری منظور الٰہی کے خاندان کی سیاست کا بھی شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا ہے

Exit mobile version