پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 33

بارش کی تباہ کاریاں اور بے بس عوام !

بارش کی تباہ کاریاں اور بے بس عوام !

بارش کی تباہ کاریاں اور بے بس عوام ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر مالی و جانی نقصانات کے واقعات ہورہے ہیں، قدرتی اور موسمی حالات کا ترقی یافتہ ممالک بھی پوری طرح مقابلہ نہیں کر پاتے، جب کہ ہمارے یہاں تو سرے سے اس ضمن میں کوئی پلاننگ نظر ہی نہیں آتی ہے،ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال بارشوں کے باعث پانی کے ریلوں میں متعد ہلاکتوں کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ، اس بار تو معصوم بچوں کی لاشیں بھی تیرتی نظر آئی ہیں

،مگر مجال ہے کہ حکمرانوں کا احساس جاگے یا انتطامیہ بروقت کوئی منصوبہ سازی کرے ، یہاں ڈنگ ٹپائو پروگرام چلایا جارہا ہے ،ہمارے ملک میں بیش تر تباہ کاری قدرتی آفات سے کم اور ناقص منصوبہ بندی سے زیادہ ہورہی ہیں۔
عوام گرمی کی شدت کے باعث بارش کی دعا ئیں ضرورمانگتے رہے ہیں، لیکن عوام بھول جاتے ہیں کہ جب بارش ہوگی تو اس کی تباہ کاریوں کا نقصان انہیںہی برداشت کرنا پڑے گا،ہر سال مون سون میںبارشیں ہوتی ہیں ،اس سال بھی ہورہی ہیں اور ہر سال کی طرح اس سال بھی عوام ہی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ،

ملک کے ہر شہر سے لے کر گائوں تک میں قدرتی آبی گزر گاہوں پر تجاوزات اور جمع شدہ کچرے کے ڈھیرںنے بارش کے پانی کے نکاس کو روک رکھا ہے ،لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اس وقت پاکستان میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری جانب تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سیوریج نظام کی تباہی کے باعث صورتحال انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایک بار پھر بارشوں

مون سون کی بارشوںنے صوبائی حکومت کے اداروں کی منصوبہ بندی سے لے کر امدادی کارروائیوںتک کا سارا پول کھول کررکھ دیا ہے ،ملک میں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی صوبائی حکومت ہے نہ کوئی ادارہ ہے ،حالانکہ ناین ڈی ایم اے کی تشکیل اسی بنیاد پر کی گئی تھی کہ مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا ذمے دار یہی ادارہ ہوگا، مگر گزشتہ برسوں میں سیلاب ہوں یا طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں،

اس ادارے کی کارکردگی ساکت ہی رہی ہے،یہاں ادارے بنا دیئے جاتے ہیں ،مگر انہیں فعال نہیں بنایا جاتا ،جس کے باعث ان کی کار کردگی نہ ہو نے کے برابر رہتی ہے ،یہ عوام کو قدرتی آفات سے با خبر کر دیتے ہیں ،مگر اس سے بچائو کے اقدام کر نے قا صر رہتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے ذرایع ابلاغ کے ذریعے بارش اور سیلاب سے پیش آنے والے خطرات سے عوام کو بروقت خبردار کردیا تھا ،

لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ حکومت اور متعلقہ محکموں نے فوری اور طویل المیعاد منصوبے کو نسے بنا رکھے ہیں اور ان پر عمل در آمد کرتے ہوئے عوام کے جانی ومالی نقصان سے بچایا جاسکے گا ،ایک طرف اداروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے تو دوسری جانب عوام نے بھی اپنی بربادی کا سارا سامان اکھٹا کر رکھا ہے ،، سالہا سال جو کچرا اور پلاسٹک کی اشیاء نالوں میں پھینکی جاتی ہیں ،یہ ہی نکاسی آب کے راستے میں بند باندھنے اور رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں،اس وقت بارشوں میںعوام کی بڑھتی

مشکلات میں اداروں کی کوتاہی کے ساتھ عوام کا اپنا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ہر سال جب زیادہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر شور مچتا ہے تو انتظامیہ کچھ دنوں کے لیے دکھاوے کے لیے حرکت میں ضرور آتی ہے ، مگر کچھ عرصے بعد پھر چپ سادھ لی جاتی ہے،ناجائز تجاوزات ہٹائی جاتی ہیں نہ ہی ندی نالے صاف ہوتے ہیں ،اس ضمن میں بار بار کے سروے ہوتے رہے ہیں اور تجاوزات کی رپورٹیں حکام کے پاس موجود ہیں،

وہ رپورٹیں اب الماریوں سے نکال کر گرد جھاڑ کر اس کے مطابق کارروائیوں کی ضرورت ہے ،ہمارا یہاں بارشوں کے پانی کے بہائو کو جاری رکھنے کے انتظام ہیں نہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز ہیں ، اس کے باعث ہی لاکھوں گیلن پانی سمندر میں گر کر ضائع ہورہاہے ۔یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے بار بار غلطیاں دیرانے کے عادی بن چکے ہیں ،ہمارے یہاںماضی میں کئی بار مختلف علاقوں میں سیلاب آچکے ہیں، سوال یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا

اقدامات کیے گئے ہیں،ملک میں سیلابی صورت حال اور پانی کی قلت دونوںہمارے سامنے ہیں،کیا تمام صوبائی حکومتوں نے پانی کی قلت دور کرنے اورسیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں کو مربوط کیاہے؟شاید کچھ بھی نہیںکیا ہے ،اگر کچھ کیا گیا ہوتا تو خوشک سالی اور سیلاب کے موقع پر سامنے نظر آجاتا ،صوبائی حکومتوں کے ساتھ ادارے بھی ڈنگ ٹپائو پروگرام پر گامزن ہیں ،اس ملک میں جب تک قومی مفاد کے پیش نظر طویل مدتی منصوبہ سازی نہیں کی جائے گی ،عوام ایسے ہی بارشوں اور سیلابوں میں ڈوب کر مرتے رہیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں