42

پانی کے حوالہ سے پاکستان کا دردناک مستقبل

پانی کے حوالہ سے پاکستان کا دردناک مستقبل

تحریر: کامران علی لنگاہ سرگودھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت پاکستان کے ساتھ کس طرح جنگ چھیڑ چکا ہے اور اس جنگ میں بھارت کو مسلسل کامیابی مل رہی ہے جب کہ پاکستان کی عوام اور اس کے حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ اور اس غلط فہمی میں چپ سادھ رکھی ہے کہ کونسا بھارت نے پاکستان کے خلاف میدان جنگ میں اپنی فوج اتار دی ہے توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے

۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔ 2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صرف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔ بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی

بلکہ دریائے سندھ پر تحقیق سے پتہ چلا کہ انڈیا نے ڈیم بنا کر دریائے سندھ کا سارا پانی روک لیا، بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ ‘‘خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہوگا‘‘۔۔۔بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ، یہی نہیں اس دوران ‘‘چٹک’’ کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ہم صرف بھارت سے پینگیں بڑھانے کے خواب دیکھتے رہے، میں عموماً سیاسی شخصیات پر تنقید سے اجتناب کرتا ہوں

لیکن گزشتہ ایک دہائی میں زراعت اور آبی وسائل کی زبوں حالی کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ذمہ داریوں کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ اس دور میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے

دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے

دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں، کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی بھٹو کے نام پر ملک لوٹ رہا ہے اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔ عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا،

قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں۔ اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے کیوں کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مجھے سیاستدانوں سے گلہ نہیں کیوں کہ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، خدانخواستہ پاکستان پر کوئی آنچ آئی

تو وہ اسے چھوڑ کر باہر بھاگنے میں دیر نہیں کریں گے۔ مجھے شکوہ عام لوگوں سے ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے، خدا وہ دن نہ دکھائے جب پانی کے گھونٹ کے لیے ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو بھارت یہ سب اپنے کسانوں کے لیے نہیں کر رہا، بلکہ اس کا مقصد پاکستان کو بنجر کرکے اسکی بائیس کروڑ عوام کو بھوکا اور پیاسا مارنا ہے، بھارت کو علم ہے کے پاکستان کی فوج سے جنگ چھیڑنا اپنی تباہی کے مترادف ہے،

کیونکہ پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ اگر بھارت سے جنگ ہونے کی صورت میں اگر پاکستان کی سلامتی کو ذرا سا بھی خطرہ ہوا پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا، لہذا انتہائی چالاکی کے ساتھ بھارت پاکستان کو تباہ کر رہا ہے، اور اس جنگ میں بھارت کو نہ تو پاکستان کی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی پاکستان کی بائیس اس کروڑ عوام کا پاکستان کی عوام یہ مت سمجھے کہ کیا ہوا اگر بھارت ہمارا پانی روک بھی لے تو ہمیں پینے کے لیے پانی تو ملتا رہے گا، شاید عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ ان کے گھر میں کیا گیا

بور پانی پینے کے لئے اور زراعت کے لئے ٹیوب ویل غیرہ ان کے لئے کافی ہیں، مگر میں آپ کو بتا دوں کے اگر آپ کے دریاؤں کا پانی روک لیا گیا، تو آپ کے گھر میں کیا گیا بور اور ٹیوب ویل بھی آپ کو پانی دینا بند کر دے گا، کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی جائے گی۔ زمین اناج اگانا بند کر دے گی پاکستان میں جو قحط سالی جنم لے گی وہ انتہائی خوفناک صورت اختیار کرجائے گی، اور اس تباہی کا تصور آپ کر سکتے ہیں۔ بالاآخرپاکستان کو یا تو پیاسا مرنا ہوگا یا پھر ایٹمی جنگ میں مرنا ہوگا،

دونوں صورتوں میں پاکستان اور اس کی عوام کو انتہائی دردناک دن دیکھنا پڑیں گے، اور یہ اس صورت میں ہوگا کہ ہم ابھی بھی چپ رہیں اور مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کریں اگر آپ سمجھ رہے ہو کہ اس صورتحال میں پاکستان کی فوج کچھ کرسکتی ہے تو یہ آپ کی بیوقوفی ہے، کیونکہ فوج صرف لڑنے کے لئے ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ فوج بھارت سے لڑسکتی ہے بھارت کے بنائے گئے ڈیموں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنا سکتی ہے، مگر یہ مستقل حل نہیں، کیونکہ جواب میں ہمیں بھی میزائلوں کا سامنا کرنا پڑے گا،

اور یہ رستہ دونوں ملکوں کی تباہی کا ہے ہماری حکومتوں کو ہمیں مجبور کرنا ہوگا کہ سفارتی سطح پر بھارت کو یہ ڈیم بنانے اور پاکستان کا پانی روکنے سے باز رکھا جائے پاکستان میں آنے والی نئی حکومت سے سب سے پہلا مطالبہ یہی ہونا چاہیے کہ ہمیں سڑکوں، پلوں، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ڈیموں کی ضرورت ہے، جتنا پیسہ ان کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی اگر ڈیموں پر خرچ کیا جائے تو پاکستان میں زراعت کو فروغ ملے گا پانی کی کمی دور ہوگی

بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوگی اور سستی بھی ملے گی، ہماری صنعتیں ترقی کریں گی کیونکہ ہماری آدھی سے زیادہ صنعتیں بند پڑی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بجلی کی قلت ہے، صنعتیں چلیں گی تو برآمدات میں اضافہ ہوگا پاکستان ترقی کرے گا، صرف ڈیم بنانے کی وجہ سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوگا یہ سب اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے، خدا کے لئے اپنی نسلوں کے لئے آواز اٹھائیں یاد رہے بھارت پاکستان کو

اس فائدے سے دور رکھنے کے لئے پاکستان کی حکومتوں کو بھاری معاوضہ دیتا آیا ہے، تاکہ حکومتیں ایک تو پاکستان کے لئے ڈیم نہ بنائیں اور دوسرا سفارتی سطح پر بھارت کو غیر قانونی ڈیم بنانے سے نہ روکیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستانی خزانے کو فضول کاموں میں جھونکا جائے، پاکستان کے خزانے کو تباہ کرنے کے لئے بھی بھارتی حکومت پاکستانی حکمرانوں کو بھاری معاوضہ دیتی ہے۰

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں