57

شجرِ ثمر بار، فرہاد احمد فگار

شجرِ ثمر بار، فرہاد احمد فگار

تحریر: ارم بشیر,ایم اے اردو جامعہ آزاد کشمیر

اردو زبان و ادب بہت وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں کئی لوگوں نے کارہاۓ نمایاں سر انجام دیے۔ اردو سے محبت کرنے والوں میں ایک نام آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی شخصیت بھی ہے۔ آپ ٹھیک سمجھے میری مراد فرہاد احمد فگار صاحب ہی ہیں۔ آپ اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ ہیں ۔ میں جب ایم اے اردو میں آئی تو ان سے بالکل ناآشنا تھی۔ مجھے تحقیق کے حوالے سے مشق بنانا تھی

جس کی وجہ سے میں بہت پریشانی میں مبتلا تھی۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے کیسے مکمل کیا جاۓ ۔ اسی پریشانی میں ایک دن استاد محترم ڈاکٹر یوسف میر صاحب نے مجھے فرہاد احمد فگار صاحب کے بارے میں بتایا

۔انھوں نے فگار صاحب کی بہت تعریف کی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ میرے ہی گاؤں میرپورہ کے کالج میں بہ طور اردو لیکچرر تعنیات ہیں۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی یعنی مجھے لگا جیسے میرا کام ہو گیا ہو۔بعد ازاں ان کا نمبر حاصل کر کے رابطہ کیا جس پر محترم نے نہایت خوش دلی سے جواب دیا۔

میں نے اپنے ماموں جان راجا طارق خان سے بات کی تو معلوم ہوا کے محترم میرے ماموں کے دوستوں میں سےہیں۔ ماموں جان نے بھی ان کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ میرپورہ کالج میں انھوں نے بہت کام کیا ہے۔میں نے فگار صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا اور8جولائی2022ء کو جمعے کے روز ماموں جان کے گھر پہ فگار صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ جب ان سے اپنی مشق کے موضوع کے بارے میں گفت گو کا آغاز ہوا

توانھوں نے اپنے شگفتہ انداز میں یوں سمجھایا جیسے کسی طالب علم کو سمجھایا‌جاتا ہے۔ فگار صاحب کے انداز تکلم سے میں متاثر ہوئی تو ساتھ ہی ان کی صحتِ زبان اور علمیت نے بھی متاثر کیا ۔موصوف اتنی زہین شخصیت ہیں کہ میں ان کے سامنے بالکل صفر ہو گئی۔ فرہاد احمد فگار صاحب نے نہ صرف میرے موضوع پر بات کی بلکہ اردو ادب کی دیگر اصناف کے بارے میں بھی مختصر بتایا ۔

میرے چچا زاد بھائی عبید شبیر سے جب میں نےمحترم کا تذکرہ کیا تو وہ چونک اٹھا کہ محترم میرے بھی استاد ہیں ۔ اس نے بتایا کےاس نے سر سے صرف چند دن ہی ریڈ فاؤنڈیشن کالج میں کلاس لی تھی اور ان سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں آج تک آپ جیسا کوئی استاد نہیں دیکھا ۔ میرے ماموں زاد بھائی ولید طارق نے بتایا کہ قائد اعظم کالج میں کچھ دن فگار صاحب کی شاگردی میں رہا۔

ولید بھائی نے بتایا کہ جب انھوں نے پڑھنے کے لیے مجھے کھڑا کیا تو ایک جملے میں کئی اغلاط کی نشان دہی کر ڈالی۔ ان کا سکھانے کا انداز ایسا تھا کہ میں ان چند دنوں کو بہت یاد کرتا ہوں۔ آج تک وہ ہنر وہ سلیقہ وہ علم سے آشنائی وہ آداب گفت گو کسی اور کےہاں نہیں پائی ۔ اپنے بھائیوں کی باتیں سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ کاش میں بھی آپ سے کچھ دن پڑھ پاتی۔ مجھے فرہاد صاحب جیسی شخصیت کی طالب علمی میسر نہ ہوئی یہ بات میرے لیے قابلِ افسوس ہے ۔ ان سے ملنے اور اپنے بھائیوں کی باتیں سننے کے بعد نہایت افسوس ہوا

کہ کاش ان سے پڑھا ہوتا ۔ فرہاد احمد فگار صاحب ٫ کالم نگاری شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید، سفرنامہ نگاری اور تدریس کا کام احسن طریقے سے جاری رکھے ہوۓ ہیں۔ زبان وبیان کی بے ساختگی، تازگی اور روانی کا فن فرہاد احمد فگار صاحب کی تحریر و تقریر میں ایسا ہے کہ آزاد کشمیر کے کسی اور لکھنے والے کے ہاں نظر نہیں آیا۔ محترم کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں

۔آپ کے تحقیقی کام کا زمانہ معترف ہے نام ور شاعر ظفر اقبال جیسی شخصیت نے آپ کے کام کو اپنے کئی کالمز میں سراہا۔آزاد کشمیر میں اردو کے نام ور استاد راجا مشتاق خان صاحب آپ کے حوالے سے بہت پر امید ہیں۔ ان کے مطابق وہ آزاد کشمیر میں اردو کے مستقبل سے مایوس تھے لیکن فرہاد احمد فگار صاحب سے مل کر پر امید ہیں۔آپ کے ادبی شہ پارے جس تواتر سے شائع ہو رہے ہیں میں سمجھتی ہوں ان جیسی ہمہ گیر مدلل شخصیت مظفرآباد میں کوئی اور نہیں ۔میرے کزن راجا عمران اللہ بھائی جو استاد ہیں

اور اردو ادب سے تعلق رکھتے ہیں وہ فرہاد احمد فگار صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ:”فرہاد احمد فگار صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔علمی اعتبار سے بہت قابل ہیں۔اردو زبان و ادب پر ان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔آزاد کشمیر کے ادب میں آپ کا کردار مثالی ہے میرپورہ کالج میں اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔

یہ الگ بات کہ میں ان سے کچھ سیکھ نہ پایا۔ فگار صاحب حساس شخصیت کے مالک ہیں۔ ناپسند بات پر بہت جلد ناراض ہو جاتے ہیں۔”یہ حقیقت ہے کہ شاعر لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ جب بھی ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہومحسوس کر جاتے ہیں۔ رانا سعید دوشی صاحب کا ایک شعر کہیں پڑھا تھا کہ: شاعر لوگ تو چڑیوں جیسے ہوتے ہیں
دل چھوٹا سا جاں ذرا سی ہوتی ہے
فرہاد احمد فگار صاحب کی شخصیت کی اگر بات کی جاۓ تو بہت منکسر المزاج شخصیت کے حامل ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ رکھتے ہیں۔ دوسروں کے دکھ سے دکھی ہو جاتے ہیں ۔ طلبہ سے ان کی شفقت مثالی ہوتی ہے۔ میرپورہ کالج میں ایک غریب طالبہ کے پیسے گم ہو گئے موصوف نے ساتھی اساتذہ سے اور خود سے اکھٹے کر دیے،اسی طرح ایک طالبہ کے والد کی وفات پر اس کی نہ صرف خود مالی اعانت کی بلکہ ساتھی اَساتذہ کو بھی تحریک بخشی۔آپ کالب ولہجہ بہت خوب صورت ہے‌

۔ لہجے میں متانت اور گفت گو میں سنجیدگی نظر آتی ہے۔فرہاد احمد فگار صاحب کی زندگی کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے بہت کھٹن حالات کا سامنا کیا ہے۔کچھ عرصے کے لیے پڑھائی موقوف کر دی ۔ لیکن جب دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا تو بنا کسی رکاوٹ یہ سفر جاری و ساری ہے۔آپ نے نمل(نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد) جیسے بڑے ادارے سے ایم اے اور ایم‌فل کی ڈگریاں مکمل کیں۔‌تادمِ تحریر موصوف عالمی سطح کی اسی درس گاہ سے پی ایچ ڈی میں مصروف عمل ہیں۔فرہاد احمد فگار صاحب اردو کے عشق میں اس درجے پر فائز ہیں کہ کسی کا خراب چلن برداشت کر لیتے ہیں

لیکن غلط اردو برداشت نہیں کرتے۔ املا اور تلفظ کے حوالے سے وہ یوں بھی سخت ہیں کہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع بھی اردو املا اور تلفظ کے مباحث ہے۔وہ ہمیشہ اپنی زبان کی ترقی چاہتے ہیں۔ان کے اردو زبان کی اصلاح سے‌متعلق لکھے گئے مضامین کو بہت سراہا جاتا ہے۔جس میں وہ گوشواروں کی صورت میں اردو کی اغلاط کی اصلاح کرتے ہیں۔فرہاد احمد فگار نے یوں تو کئی اصناف میں کام کیا تاہم ان کا اصل میدان تحقیق ہے۔وہ نہایت ذمے دار محقق ہیں جو ایک ایک مسئلے کے لیے طویل سفر کرنے کے ساتھ ساتھ کئی طرح سے حوالے تلاش کرتے ہیں۔میں اس بات کا برملا اظہار کرتی ہوں

کہ فگار صاحب سے جتنا سیکھنے کو ملا وہ نہ اس سے پہلے کسی کتاب سے سیکھا نہ کسی استاد سے۔میرپورہ کالج کے لیے بھی آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس ادارے سے ضلع نیلم کی تاریخ کا واحد اور اولین رسالہ”بساط” نکالنے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔ میں سمجھتی ہوں میرپورہ کالج میں پڑھنے والے طلبہ بہت خوش قسمت ہیں کہ انھیں ایک بڑی علمی و ادبی شخصیت سے پڑھنے کا موقع ملا۔فرہاد احمد فگار صاحب اگرچہ خود کو شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے لیکن آپ کے کئی اشعار

بہت پسند کیے گئے۔‌جیسا کہ یہ شعر:
کلیوں کے رخ پہ دیکھنا کیسا نکھار ہے
تو ان کو گر نظر نہ آۓ تو کیا بنے

موصوف کا یہ شعر جب سے پڑھا میرے دل و دماغ پر چھا گیا۔فگار صاحب کا یہ شعر جب سے پڑھ پڑھ کر بے ساختہ داد نکلتی ہے۔میں اس شعر کے لیے ان کی شکر گزار ہوں کہ اتنا عمدہ شعر ہمیں دیا۔ یقینا اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ پہلی بار سن کر یا پڑھ کر دل و دماغ پر ثبت ہو جاتا ہے۔ فگار صاحب کے مزید چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں کہ اردو دنیا کا یہ شجر ثمر بار ہمیشہ ہرا رہے۔ آمین

نظر آتے ہیں پجاری تو بہت دولت کے
کوئی الفت کا طلب گار نہیں دیکھا ہے

شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفی کے گھرانے کا ہے

مزدوروں کے ‌نام پہ اب کے بھی
کچھ لوگوں نے صرف سیاست کی

تجھ سے مل کے سب در دل کے وا ہوتے ہیں
تو ہی تو ہوتا ہے ہم جس جا ہوتے ہیں

گہری شدید گہری ہیں شب کی اداسیاں
ایسے میں تیری یاد نہ آۓ تو کیا بنے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں