33

قائداعظمؒ کا پاکستان

قائداعظمؒ کا پاکستان

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

ہمارے معاشرے میں شروع سے لے کر آج تک یہ موضوع زیر بحث ہے کہ قائداعظمؒ کون سا پاکستان چاہتے تھے سیکولر یا اسلامی؟ میں اس آرٹیکل کے اندر یہی بات واضع کرنا چاہوں گا کہ قائداعظمؒ کیسے پاکستان کے حامی تھے؟ 1940 سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ نے کبھی بھی انڈیا کی تقسیم کی بات نہیں کی بلکہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کی بات کر رہی تھی۔

حتیٰ کہ 1940 میں جو تاریخی قرارداد پیش کی گئی اس میں بھی مسلمانوں نے الگ ریاست کی بات نہیں کی تھی بلکہ ہندوؤں اور انگریزوں کے مختلف اخباروں نے پروپگنڈا کے طور پر قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دے دیا جس کو بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنا نصب العین بنا لیا اور آگے چل انڈیا دو حصوں پاکستان اور بھارت میں منقسم ہو گیا۔ لیکن پاکستان بننے سے پہلے ہی یہ بحث چھڑ گئی تھی

کے پاکستان کا نظام کیسا ہونا چاہئے؟ کیونکہ اس وقت پاکستان کے سامنے تین مختلف معاشی نظام کیپٹلزم، کمیونزم اور اسلامی نظام تھے۔ اسلام کی اگر بات کی جائے تو اسلام ملکمل ضابطہ حیات ہے اس میں ذندگی جینے کا ہر اصول موجود ہے خواہ وہ سیاسی ہو، معاشی ہو، مذہبی ہو یا معاشرتی ہو۔ قائداعظم محمد جناح کے نزدیک پاکستان کا نظام خالصتاً اسلامی تھا۔ 1940 سے لے کر 1947 تک انہوں اپنی ہر تقریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کے موقع پر قائداعظمؒ نے دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے

فرمایا: ” اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں لہذٰا یہ وہم اپنے ذہنوں سے نکال دیں کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ میں واضع طور پر کہتا ہوں کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں”۔ اسی طرح 1945 میں گاندھی کے نام ایک خط میں آپ نے لکھا ہے ” ہم ہندو اور مسلمان ہر چیز میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہم اپنے مذہب، تاریخ، تہذیب و تمدن، لباس غرضیکہ ہر چیز میں مختلف ہیں”۔ اسی طرح قیام پاکستان کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے

آپ نے 1944 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔” کہ پاکستان کے مطالبے کے محرکات کیا تھے؟ مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کی وجہ جوز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا”۔ 1940 کے بعد آپ کوئی بھی تقریر دیکھ لیں اس میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسلام کی بات ضرور کی ہے۔ اسی طرح 1948 میں آپ نے اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے

فرمایا: “ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں”۔ ان تمام ارشادات سے یہ واضع ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ خالصتاً اسلامی ریاست چاہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بہت سارے مسائل ابھر کر پاکستان کے سامنے چیلنج بن گئے تھے جس کی وجہ سے قائداعظمؒ کو موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ اسلام کے نفاذ کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام اٹھا سکیں۔ مارچ 1944 میں انہوں نے فرمایا:

” اسلام ہمارا رہنما ہے اور ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے ہمیں کسی سرخ یا پیلے پرچم کی ضرورت نہیں اور نہ ہی سوشلزم، کمیونزم، نیشلزم یا کسی دوسرے ازم کی ضرورت ہے”۔ پس یہ ثابت ہوا کے قائداعظمؒ اسلامی ریاست کے ہیروکار تھے اسلامی ریاست ہی ان کا خواب تھا۔ اسلام ایک بہترین نظام ہے جو زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام زندہ آباد پاکستان پائندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں