اشرافیہ کی سیاست اور عوام
جمہوریت اس نظام حکومت کا نام ہے کہ جس میں اصل بالادستی عوام کو حاصل ہو اور انتخابی عمل میں شریک ہوکرمقتدر ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ ہر شہری کیلئے کھلا رہے، اس کے لیے وسائل کی قلت کہیں کوئی رکاوٹ نہ بنے اور ایک شہری محض اپنی قومی خدمات ، اعلیٰ صلاحیتوں اور عوامی مقبولیت کی بنیاد پرانتخابات میں کسی بڑے سے بڑے دولت مند کا مقابلہ کرکے کامیابی حاصل کرسکے،
اس حوالے سے ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صورت حال خاصی بہتر ہو گئی ہے، لیکن جن ملکوں میں مستحکم جمہوری روایات پروان نہیں چڑھ سکیں ، وہاں آج بھی سیاست میں کامیابی کے لیے اصل فیصلہ کن عامل دولت اور طاقت ہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے سیاسی حالات میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،سیاست میں پیسے والوں کی ہی اجارہ داری ہے ،اس ملک میں سیاست کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ بہت سے سیاسی نابالغ بھی پیسے کے زور پرسیاسی رہنما کہلانے لگے ہیں ،انہیںسیاسی اقدار و اخلاقیات کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ،
ان کا مقصدنظراپنے پارٹی قائد کو خوش کرکے کوئی عہدہ حاصل کرنا اور بعدازاں اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ہے، اس سیاسی اور نام نہاد جمہوری نظام سے تو ایسا آمرانہ نظام بہتر ہے کہ جس میں کم از کم کسی حدتک رلیف کے ثمرات عام آدمی تک بہ آسانی پہنچ تو جاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے ،لیکن اگر لولی لنگڑی جمہوریت میں بھی آمریت نظر آنے لگے
تو کیسے آمریت سے بہتر مانا جاسکتاہے ،ہمارے ہاں جمہوریت کے علمبر دار زبانی کلامی جمہوریت کی باتیں بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر جمہوری روایات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں ،اس کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ہی جمہوریت کا فقدان ہے ،سیاسی پارٹیوں میں انتخابات ہوتے ہیں نہ جمہوری انداز میں فیصلے کیے جاتے ہیں ،پارٹی قیادت اپنی مرضی سے طاقتور لوگوں کا انتخاب کر کے عوامی نمائندہ نامزد کردیتے ہیں،یہ عوامی نہیں پارٹی نمائندے ہوتے ہیں ،اس لیے ہی اپنے مفاد کے پیش نظر رکھتے ہوئے
وقت آنے پر اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں ، یہ ان سیاسی لیڈروں کا کردار ہے کہ جنہیں عوام منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، تاکہ اس ملک کا مستقبل سنورے، لیکن یہ سیاستدان ملک وعوام کا مستقبل سنوارنے کی بجائے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ایسے ایسے گھٹیا کام کرتے ہیں کہ سیاست اور جمہوریت کے نام سے ہی نفرت ہو نے لگتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جھوٹ اور منافقت پر مبنی ایک ایسا گھنائونا کھیل بن چکا ہے کہ جس کی آڑ میں مخصوص عناصر اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہیں اوربرس ہا برس سے پارٹی کے لئے خدمات سرانجام دینے والوں کو پارٹی کی قیادت سے کوسوں دور رکھا جارہاہے ،جبکہ موروثی نابالغ سیاستدان سیاسی پارٹیوں پر چھائے ہوئے ہیںاورسیاسی جدوجہد کے تجربہ کا موروثی سیاستدانوں کے کھلنڈرے بچوں کے سامنے نہ صرف سر جھکا کر کھڑے ہوتے ہیں ،بلکہ ان کی اندھا دھند تقلید پر بھی مجبور ہوتے ہیں،
اس نام نہاد جمہوری رویئے نے ہی عام آدمی کو اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور کررکھاہے، اب وہی لوگ اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو دولت مند اور اس کھیل کا باقاعدہ حصہ ہیں، ورنہ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر تو کسی عام سیاسی ورکر کو سیاسی جماعت میں عام عہدہ تک نصیب نہیں ہوتاہے۔
اس سیاسی حمام میں سب ہی گندے اور ننگے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ ساری سیاسی جماعتوں کو سرمایہ داروں نے ہائی جیک کر رکھا ہے، اسی طرح مقامی سطح پر دیکھا جائے تووہاں بھی ہماری سیاست کا محور سرمایہ دار ہی ہے ،بس ایک عام پارٹی کارکن ہیں کہ جو ان کے نعرے لگا کر اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں
اور پھر جب معاشی حالت تباہ ہوتی ہے ،مہنگائی بڑھتی ہے تو وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوستے ہیں کہ جس کا فائدہ انہی سرمایہ داروں اور سیاسی کاروبار کرنے والوں کو ہی پہنچتا ہے، یہ سیاست کے ایسے وائرس ہیںکہ جو غریبوں کے معاشی حالات کو تباہ کرکے انہیں بھوک و افلاس میں مبتلا کرتے ہیں، ان سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ ملکی سیاست میں کرپٹ سیاستدانوں اور دولت کے پجاریوں کی بجائے اچھے اور صاحب کردار با صلاحیت لوگوں کو آگے لایا جائے،اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاست عام آدمی کیلئے گالی اور اشرافیہ کی لونڈی بن کر ہی رہ جائے گی۔
جمہوریت اس نظام حکومت کا نام ہے کہ جس میں اصل بالادستی عوام کو حاصل ہو اور انتخابی عمل میں شریک ہوکرمقتدر ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ ہر شہری کیلئے کھلا رہے، اس کے لیے وسائل کی قلت کہیں کوئی رکاوٹ نہ بنے اور ایک شہری محض اپنی قومی خدمات ، اعلیٰ صلاحیتوں اور عوامی مقبولیت کی بنیاد پرانتخابات میں کسی بڑے سے بڑے دولت مند کا مقابلہ کرکے کامیابی حاصل کرسکے،
اس حوالے سے ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صورت حال خاصی بہتر ہو گئی ہے، لیکن جن ملکوں میں مستحکم جمہوری روایات پروان نہیں چڑھ سکیں ، وہاں آج بھی سیاست میں کامیابی کے لیے اصل فیصلہ کن عامل دولت اور طاقت ہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے سیاسی حالات میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،سیاست میں پیسے والوں کی ہی اجارہ داری ہے ،اس ملک میں سیاست کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ بہت سے سیاسی نابالغ بھی پیسے کے زور پرسیاسی رہنما کہلانے لگے ہیں ،انہیںسیاسی اقدار و اخلاقیات کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ،ان کا مقصدنظراپنے پارٹی قائد کو خوش کرکے کوئی عہدہ حاصل کرنا اور بعدازاں اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ہے، اس سیاسی اور نام نہاد جمہوری نظام سے تو ایسا آمرانہ نظام بہتر ہے کہ جس میں کم از کم کسی حدتک رلیف کے ثمرات عام آدمی تک بہ آسانی پہنچ تو جاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے ،لیکن اگر لولی لنگڑی جمہوریت میں بھی آمریت نظر آنے لگے تو کیسے آمریت سے بہتر مانا جاسکتاہے ،ہمارے ہاں جمہوریت کے علمبر دار زبانی کلامی جمہوریت کی باتیں بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر جمہوری روایات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں ،اس کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ہی جمہوریت کا فقدان ہے
،سیاسی پارٹیوں میں انتخابات ہوتے ہیں نہ جمہوری انداز میں فیصلے کیے جاتے ہیں ،پارٹی قیادت اپنی مرضی سے طاقتور لوگوں کا انتخاب کر کے عوامی نمائندہ نامزد کردیتے ہیں،یہ عوامی نہیں پارٹی نمائندے ہوتے ہیں ،اس لیے ہی اپنے مفاد کے پیش نظر رکھتے ہوئے وقت آنے پر اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں ، یہ ان سیاسی لیڈروں کا کردار ہے کہ جنہیں عوام منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں،
تاکہ اس ملک کا مستقبل سنورے، لیکن یہ سیاستدان ملک وعوام کا مستقبل سنوارنے کی بجائے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ایسے ایسے گھٹیا کام کرتے ہیں کہ سیاست اور جمہوریت کے نام سے ہی نفرت ہو نے لگتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت جھوٹ اور منافقت پر مبنی ایک ایسا گھنائونا کھیل بن چکا ہے کہ جس کی آڑ میں مخصوص عناصر اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہیں اوربرس ہا برس سے پارٹی کے لئے خدمات سرانجام دینے والوں کو پارٹی کی قیادت سے کوسوں دور رکھا جارہاہے ،جبکہ موروثی نابالغ سیاستدان سیاسی پارٹیوں پر چھائے ہوئے ہیںاورسیاسی جدوجہد کے تجربہ کا موروثی سیاستدانوں کے کھلنڈرے بچوں کے سامنے نہ صرف سر جھکا کر کھڑے ہوتے ہیں ،بلکہ ان کی اندھا دھند تقلید پر بھی مجبور ہوتے ہیں،
اس نام نہاد جمہوری رویئے نے ہی عام آدمی کو اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور کررکھاہے، اب وہی لوگ اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو دولت مند اور اس کھیل کا باقاعدہ حصہ ہیں، ورنہ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر تو کسی عام سیاسی ورکر کو سیاسی جماعت میں عام عہدہ تک نصیب نہیں ہوتاہے۔
اس سیاسی حمام میں سب ہی گندے اور ننگے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ ساری سیاسی جماعتوں کو سرمایہ داروں نے ہائی جیک کر رکھا ہے، اسی طرح مقامی سطح پر دیکھا جائے تووہاں بھی ہماری سیاست کا محور سرمایہ دار ہی ہے ،بس ایک عام پارٹی کارکن ہیں کہ جو ان کے نعرے لگا کر اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں
اور پھر جب معاشی حالت تباہ ہوتی ہے ،مہنگائی بڑھتی ہے تو وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوستے ہیں کہ جس کا فائدہ انہی سرمایہ داروں اور سیاسی کاروبار کرنے والوں کو ہی پہنچتا ہے، یہ سیاست کے ایسے وائرس ہیںکہ جو غریبوں کے معاشی حالات کو تباہ کرکے انہیں بھوک و افلاس میں مبتلا کرتے ہیں،
ان سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ ملکی سیاست میں کرپٹ سیاستدانوں اور دولت کے پجاریوں کی بجائے اچھے اور صاحب کردار با صلاحیت لوگوں کو آگے لایا جائے،اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاست عام آدمی کیلئے گالی اور اشرافیہ کی لونڈی بن کر ہی رہ جائے گی