51

سردی زمام بخار جیسے موسمی امراض اور اس کا تریاق

سردی زمام بخار جیسے موسمی امراض اور اس کا تریاق

نقاش نائطی
۔ +966562677707

فی زمانہ مسلم گھرانوں سے معدوم ہوا،اہم غذائی جز، جَؤ سے ڈھیروں بیماریوں کا علاج طب نبویﷺ کی ہدایت کی روشنی میں
مالیگاؤں کا مشہور کاڑھا تبدیلی موسم کے وقت، خصوصا برساتی موسم میں، معاشرے میں عام ہونے والی چند بیماریاں، سردی زکام، کھانسی، بخار، بدن درد ،سستی تھکان، ٹھنڈ لگنا، الرجی یا موسمی وائرل انفیکشن ہونا یہ معاشرے کی عام بیماریاں ہیں جس کے شکار خصوصا بچوں کے والدین، ڈاکٹروں، شفا خانون میں لائین لگائے،

اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے پائے جاتے ہیں۔خالق و مالک کائینات نے ہر انسان میں، ایسے موسمی امراض سے از خود صحت یاب ہونے کے لئے،ہمارے جسم کے اندر ہی، خود مدافعتی یاازخودشفاعتی نظام وضع کیا ہوا ہےجسے ایمیون سسٹم کہتے ہیں۔ ہاں البتہ مختلف ماحول میں پلنے بڑھنے والے انسانوں میں، ان کے استعمال میں آنے والی اغذیہ کے تناسب سے، مختلف بیماریوں سے از خود شفایابی کی طاقت و قوت میں کمی و بیشی پائی جاتی ہے۔

لیکن قدرت کے اس نیم و قانون کے چلتے، ہم انسان، اسے بہت بڑی بیماری سمجھ، جلد سے جلد اپنے بچوں کو صحت یاب کرانے کے لئے، مضر صحت انگریزی ادویات کا استعمال گاہے بگاہے کرتے ہوئے، ہمارے جسم کے اندر، قدرت کے عطا کردہ خود مدافعتی شفایابی سسٹم کو،نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

انگریزی ادویات ہوں کہ ہومیوپیتھی، ایورویدیک یونانی ادویات، کسی بھی طریق علاج سے،عموما 90% مریض صحت یاب ہو ہی جاتے ہیں لیکن کسی بھی طریقہ علاج دوائی نہ لینے والے بھی، صرف کچھ احتیاطی تدابیر،جیسے سقیل مرغن اغذیہ سےپرہیز کے ساتھ، کچے ناریل پانی، موسمبی یا انناس جوس یا فروٹ کھاتے ہوئے بھی،

ایک دو دن آرام کرتے ہوئے، بغیر علاج کئے، اہنے اندرونی خود مدافعتی ایمیون سسٹم سے، دو تین دن کے اندر از خود شفایاب ہوجایا کڑتے ہیں۔سب سے اہم بات، کسی بھی چیز پر وہم و گمان و یقین کامل جتبا مرکوز ہوتا پے اسی اعتبار سے ہم شدایابی پارہے ہوتے ہیں۔مالک دو جہاں اللہ رب العزت، خود آپنے قرآن مجید کے ذریعہ سے انسانیت کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گمان کےمطابق اس کے ساتھ سلوک کیا کرتا پے۔

جو انسان ہمہ وقت انگریزی ادویات لینے کا عادی ہو، وہ لوگوں کے کہنے پر بغیر اعتماد کے ہومیوپیتھی یونانی ایورویدک علاج بھی کریگا تو اسے یقینا شفایابی نصیب نہیں ہوگی۔ جب کہ اس جیسے ہی ہزاروں مریض ہیومیو، یونانی ایوروید یا اس جیسے گھریلو ٹونٹکوں سے شفا پارہے ہوتے ہیں۔ دراصل بحیثیت مسلمان ہونے کے، ہمارا ایمان و یقین کامل، شافی کل الامراض، اللہ کی ذات سے ہونا ضروری ہے۔ ہم اللہ کی ذات پر ڈاکٹر کو فوقیت دیتے انگریزی ادویات کے پیچھے ہی بھاگتے رہیں گے تو، ہمیں مرتے دم تک انہی ادویات کے سہارے جینا پڑیگا

یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خصوصا بچوں کو لاحق ہونے والے موسمی امراض کو، جلد صحت یاب کروانے کے چکر میں، ہم انہیں ‘مضر صحت انسانی’ اینٹی بائیوٹک دوائیں بار بار کھلاتے ہوئے انکےاندرونی خودمدافعتی نظام کو زک پہنچارہے ہوتے ہیں، جس سے بچے جوان ہوتے ہوتے، انیک اقسام کے موذی اسقام کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دنیا کے تمام تعلیم یافتہ انسان انگریزی ادویات کے انسانی اجسام کو نقصان دہ ہونے کے قائل رہتےہوئے بھی، “کیا کریں مجبوری ہے” یہ کہتے ہوئے انگریزی ادویات کے ہی غلام بنےپائے جاتےہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے اعلی تعلیم یافتہ حضرات سگریٹ نوشی یا شراب نوشی، ہلاکت خیزی سے باخبر رہتے ہوئے بھی،اپنی عادت خبیثہ چھوڑ نہیں پاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم یہ کہیں گے کہ جتنا ہوسکے انگریزی ادویات سے اجتناب ضروری ہے۔ ہاں البتہ مجبوری اور بات ہے
موسمی امراض سے آمان کے لئے، جہاں بیسیوں گھریلو نسخے یا دادی اماں کے ٹوٹکے معروف و مقبول ہیں،

وہیں کورونا وبا دوران مالیگاؤں مہاراشٹرا کی کاڑھا چائے بڑی مشہور ہوئی ہے۔ اور یہ ہر کسی کے گھر میں دستیاب، کچھ چیزوں سے آسانی کے ساتھ، ہر کسی کے ہاتھ بن بھی جاتی ہے۔ اس کے بنانے کا طریقہ ہمیں لکھ دیتے ہیں۔ لونگ، کالی مرچ ایلائچی چار چار عدد، ادرک دارچینی دس دس گرام، چاء پتی ایک چھوٹی چمچ،تو کلونجی دانے آدھا چمچ، ہلدی نمک دو دو چٹکی اور 50 گرام خالص دیسی گڑ، ایک لیٹر پانی میں، دھیمی آنچ پر کچھ وقت پکانے سے،آٹھ سے دس انسانوں کے لئے صحت افزا چاء تیار ہو جاتی ہے، جو تازہ پودینہ پتوں کی مہک کے ساتھ نوش کی جاسکتی ہے۔روزانہ ایک دو مرتبہ ایسا قدرتی کاڑھا پینے سے، کل اقسام کے موسمی امراض سے نجات پائی جاسکتی ہے

عربوں میں آج بھی چالیس ایک اقسام کے چاء، قہوے مختلف موسم کے اعتبار سے پئیے جاتے ہیں۔ عربوں کی آل مشہور ہم مسلمین میں، عربوں کی ناپسندیدہ دودھ والی ‘کرک چاء’ ہی کیوں معاشرے کا جزء لاینفک بنی ہوئی ہے؟

چالیس پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، والد محترم مرحوم، ہمیں لئے گاؤں کے باہر ویرانے پہاڑی پر خودرو اگنے والی ایک دو مخصوص جھاڑیوں کے پتے توڑ لاتے تھے، اسے پھتر کی سیل پر پیس کر موسم برسات سے قبل، تریاق کی شکل، گھر کے تمام بچوں کو زبردستی پلایا جاتا تھا۔ جو ہمیں عموما موسمی امراض سے آمان میں رکھنے کافی ہوتا تھآ۔آج بھی معاشرے کے بڑھے بوڑھے یا دادی اماں اس سمت موجود نئی نسل کی رہنمائی کرسکتی ہیں۔ برساتی پانی میں کھیل بچوں کے بھیک آنے پر، خاندان کی کسی بزرگ نساء کے بنائے کالے کلوٹے بھٹے تیل یا ناریل تیل کو، سونے سے قبل بچوں کے تلوؤں میں ملا جاتا تھا۔

سوکھی ادرک اور دیگر جڑی بوٹیوں کو خالص گڑ کے ساتھ پھتر سیل پر باریک پیس کر،پوڈر کی شکل سونٹی پوٹ یا پوڈر ہر گھر میں رہا کرتا تھا جو ہاضمہ کی خرابی کو معتدل رکھنے ممد ہوا کرتا تھا۔ جہاں مرغن مصالحہ دار کھانے کھائے جاتے تھے وہیں ناریل کھرچ اس سے نکالے گئے دودھ سے بنے مختلف حلوے یا پوٹنگ بھی کثرت سے کھائے جاتے تھے، جو مرغن غذاؤں کے اثرات بد کو زائل کرنے ممد ہوتے تھے۔

اس زمانے میں ڈاکٹر کہاں ہوتے تھے؟ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑتا تو، گھر کے اسٹور روم میں رکھا، لکڑی چولہے کے دھوئیں سے کالا بنا وہ ڈبہ باہر لا، نانی آماں کے مشورے سے، کوئی جڑی بوٹی، پھتر کے سیل پر گھس کر، بیماروں کو پلایا جاتا تھا۔ گھر کے ٹوٹکوں سے صحت یاب نہ ہونے پر ، گاؤں ہی کے کسی وید حکیم کو بلا، ان کے کہے مطابق جڑی بوٹیوں ہی سے علاج کیا جاتا تھا۔ عموما ہر موسمی امراض بچاؤ کے لئے، موسم کے اعتبار سے سالن ناشتے پکائے جاتے تھے ،سردی میں دیسی مرغی انڈہ زیادہ پکتا تھا

تو گرمیوں میں مونگ حلوہ یا مونگ دال اور سبزیاں زیادہ پکائی جاتی تھیں، یا بڑا شوپ (فنل گرین) کو ابال کر پانی پلایا جاتا تھا جس سے پیٹ کے اندر بننے والی ریح یا گیس کا خاتمہ ہوتا تھا۔ ہر گھر میں دودھ پھاڑ دہی تیار کی جاتی تھیں، جو موسم گرما کی تپش سے، ہونے والے امراض کا تریاق ہوا کرتاتھا۔

الغرض ان انگریزی ادویات سے ماورا، اس پہلے والے ماحول میں بھی، ہمارے آباء و اجداد ہم سے زیادہ صحت مند تندرست ہم سے زیادہ عمر جی لیا کرتے تھے۔ سنن دعاؤں کا اہتمام ہر کسی میں تھا، ہر کنکر میں شنکر کو تلاش کرتے، ھندوؤں کے عقیدے کے بمثل، ہر جگہ اللہ کی موجودگی کے عقیدے کے خلاف، اللہ کے عرش معلی پر مستوی رہتے ہوئے، زمین کے نیچے ساتھ تہوں کے اندر والی مخلوق کی خبر رکھنے اور انہیں رزق پہنچانے کا یقین کامل ہر بچہ بچہ کو ہوا کرتا تھا جو آج کے وحدت الوجود،

ہر چیز میں اللہ کی ذات و صفات کو تلاشتے، گمراہ کن عقیدے کی وجہ ہمارے آس پاس، ہر جگہ اللہ کے موجود رہتے یقین کے باوجود، ہمیں خوف خدا سے ماورا، معصیت کا شکار کئے ہوئے، پوری نڈرتا کے ساتھ جینا سکھائے ہوئے ہے۔ عمارت کی بنیاد مضبوط نہ ہو تو اس پر کتنی ہی دلکش عمارت تعمیر کرلی جائے، فی زمانہ جدت پسندی کے آندھی طوفان میں، عمارت کسی بھی وقت تاش کے پتوں کی طرح زمین بوس ہوسکتی ہے۔

سنن ذکر و اذکار،صوم و صلاة سے دنیا میں رہتے، بعد موت دوزخ سے نجات اور جنت کے محجوز کئے جانے والے فضائل اعمال عقائد نے، جہاں ہمارے ایمان کامل بااللہ اور تقدیر پر یقین کامل، متزلزل کئے، ہمیں روحانی امراض کا شکار بنا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح، ایک اللہ پر ایمان کامل کے فقدان نے، ہمیں مختلف دنیوی جدت پسند امراض کا شکار بنا، ہزارہا اقسام کے دنیوی خداؤں کا مطیع و فرما بردار بنادیا ہے۔ پورے بھارت میں،

اپنی دین داری کے لئے مشہور، اور فی زمانہ علماء و حفاظ کرام کی بہتات کے درمیان، ہم میں کتنے ایسے نام نہاد مسلمان ہیں؟ جنہوں نے خاتم الانبیاء سر ور کونیں محمد مصطفی ﷺ کی زندگی بھر کی ہدایات طب انسانی پر مشتمل، طب نبویﷺ کا مطالعہ کیا ہے اور انسانی جسم کو سردی گرنی سے متوازن رکھنے والے نبیذ، جیسے کتنے کھانے آج کے مسلم معاشرے میں متعارف ہیں؟ گائے گوشت کی تیزابت سے نجات کے لئے، گائے گوشت کو لوکی کے ساتھ پکانے کی ہدایت رسولﷺ کیا آج کے مسلم معاشرے میں زندہ ہے

۔ جس گائے گوشت کی تیزابیت سے نجات کے لئے لوکی کے ساتھ گائے گوشت پکانے کی ہدایت اللہ کے رسول ﷺ نے دی تھی آج کا مسلم معاشرہ اسی گائے کے گوشت کو مرچ مصالحہ والی دگنی تیزابیت کے ساتھ، حد سے زیادہ کھانے کو معمول بنائے، السر ،ٹیومر، کینسر، تھائیروئیڈ جیسے موذی امراض کےشکار پائے جاتے ہیں۔ اللہ ہی ہمیں اسوئے رسول ﷺ پر عمل پیرا صحیح العقیدہ مسلمانوں میں سے بنائے۔ونا علینا الی البلاغ

طب نبوی عمل آوری سے معمولی اقسام، اسقام ہی نہیں، خطرناک موذی امراض سے بھی شفایابی ممکن
طب نبوی ﷺ وہ پھل جس کے کھانے سے چالیس مردوں کے برابر طاقت ملتی ہے
کھانے پینے کے سلسلے میں ہدایاتِ نبوی ﷺ
طب نبوی ﷺ جدید سائینس کی روشنی میں
معدے کا السر اور طب ِ نبوی ﷺ تحریروتحقیق
شوگر کے مریضوں کیلئے شہد سے حصولِ شفا کے متعلق ایک شبہ
ہم گردوں کے امراض سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
علاج بالغذاء

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں