37

سیلابی تباہی اور بےحس سیاستدان

سیلابی تباہی اور بےحس سیاستدان

تحریر: نعیم اشرف

پاکستان مین حالیہ مون سون کی بارشوں کے بعد سیلاب کی تباہ کاریوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا دی ہے اب تک کی میڈیا اطلاعات کے مطابق 1000 کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ تقریباً 30 لاکھ افراد اِن بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں. ہمارے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک کے چاروں صوبوں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جِس کے نتیجے میں زرعی معیشت پر بہت گہرا اثر پڑا ہے

اور ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے، کوہستان سے لیکر جنوبی پنجاب ، سندھ، بلوچستان کے دیہی و شہری علاقوں میں موجود کچے پکے مکانات بہہ گئے جِس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ ان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کے سبب پڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا جسمیں سڑکیں اور پل سیلاب سے متاثر ہوئے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے اور 1000 بلین مالیت کی فصلیں تباہ ہو گئیں

، ہزاروں مویشی موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ اس وقت سات لاکھ سے زائد افراد امدادی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ بلوچستان اور سندھ متاثر ہوا جہاں 15 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مالی و جانی نقصانات ہوئے۔ اسی طرح صوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں کا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوا اور کئی ملین ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں،صوبے کے مختلف اضلاع میں سیلابی ریلے سے کئی افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، ہزاروں مکانات تباہ ہوئے

اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں بھی ہلاکتوں اور زخمیوں کی ایک تعداد موجود ہے، کوہستان سے لیکر سوات، کاغان ویلی اور دیگر اضلاع تقریباً سات ہزار مکانات تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔آزاد کشمیر میں بھی ہزاروں مکانات پانی کی نظر ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں اور زخمیوں کی اطلاعات بھی ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد سیاست میں مشغول ہے اور عوام کی سیاسی دلچسپی کے پیش نظر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی سیاسی پروگراموں، خبروں اور تبصروں کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے

۔ پاکستانی میڈیا کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر اس پہلو کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ میڈیا کا بیشتر وقت سیاسی پروگراموں اور خبروں کیلئے مختص ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے اہم اور حساس معاملات عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ سماجی مسائل کو بلکل بھی اہمیت نہیں ملتی۔ یہ صورتحال اب معمول بن چکی ہے۔ آج کل بھی ہمارا میڈیا شعوری یا لاشعوری طور پر یہی کر رہا ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل اٹھا کر دیکھیں اس میں شہباز گل یا عمران خان کی گرفتاری کی خبر زیر بحث دکھائی دیتی ہے

۔ یہ سلسلہ کئی دن سے جاری ہے۔ شہباز گل قانون کی گرفت میں ہیں۔ اصولا اس معاملے کوقانونی طریقہ کار کے مطابق حل ہونے دیا جائے۔ اگر کوئی زیادتی ہوتی ہے تو میڈیا اس معاملے پر ضرور آواز بلند کرے. لیکن گزشتہ کئی دن سے بلوچستان، سندھ اور ملک کے دوسرے صوبوں میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اور میڈیا کو سیلاب کی تباہ کاریوں پر بات کرنے کی فرصت کم ہی ہے۔ بلوچستان، سندھ جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ اب خیبر پختونخواہ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہے۔

سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے راستے بند اور رابطے معطل ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس قدرتی آفت کے نتیجے میں ہزاروں مکان مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں۔ جبکہ پندرہ ہزار کے قریب مکانوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں بھی پانی نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔وہاں بھی ہزاروں شہری متاثر ہوئے ہیں۔مختلف جگہوں پر یہ واقعات بھی رونما ہوئے کہ سیاحت کی غرض سے دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد اپنی گاڑیوں اور فیملی سمیت طوفانی سیلاب اور بارشوں میں پھنس گئے۔ کئی سیاحوں کی گاڑیاں سیلابی پانی میں بہہ گئیں

۔ کئی شہری گاڑیوں سمیت سیلاب میں بہہ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی میڈیا اس صورتحال کی خبریں ناظرین اور قارئین تک پہنچا رہا ہے۔ لیکن میڈیا کی زیادہ تر توجہ ایک شخص کی گرفتاری پر مرکوز ہے۔ میڈیا کو دیکھ کر تاثر ملتا ہے جیسے میڈیا کے نزدیک غریب شہریوں کی ہلاکت، ان کے مکانوں کا منہدم ہونا،

عورتوں اور بچوں کا آفت میں پھنس جانا اتنا اہم نہیں، جتنا اہم سیاسی معاملات پر بات کرنا ہے۔ سیاستدانوں کا حال بھی میڈیا سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف ملک کے شہریوں پر آفت ٹوٹی ہوئی ہے، دوسری طرف جلسے جلوس جاری ہیں۔ طویل پریس کانفرنسز ہورہی ہیں، سیاستدانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے

جیسے چند ہزار شہریوں کی ہلاکت یا چند ہزار خاندانوں کا بے گھر ہو جانا ان کے نزدیک کوئی بات ہی نہیں۔ بہت اچھا ہو اگر میڈیا سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کی ترغیب دے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے جلسے کرنے والے سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ یہ رقم متاثرین میں تقسیم کریں۔ اس وقت یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب آنا برسوں کا معمول ہے۔ لیکن حکمرانوں نے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ڈیم اور پانی کے ذخائر بنانے کی طرف توجہ کبھی نہیں دی۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ بھارت نے حسب معمول پاکستان کی طرف پانی چھوڑا تو راوی میں بھی پانی کی سطح حد سے زیادہ بڑھنے کے خدشے کا اظہار ہو رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں پانی کی شدید قلت ہے

۔ سندھ تھر کے علاقہ میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ جانور بھی مرتے ہیں۔ یہی حال بلوچستان اور دیگر صوبوں اور شہروں کے کئی علاقوں کا ہے۔ یعنی ایک طرف عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ دوسری طرف پانی اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے کہ سیلاب کی صورت میں غضب ڈھاتا ہے۔ اور آخر کار دریاؤں کا طوفان جمع ھو کر سمندر کی لہروں کی نظر ہو جاتا ہے، برسوں سے ماہرین نوحہ کناں ہیں کہ ہمیں ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔یقیناً ہمارے ہاں ڈیم بننے چاہیے تھے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو نعرے بازی سے فرصت نہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں قومی منصوبے بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ سے آج تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد کسی فوجی حکمران نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ آج کالا باغ سمیت دیگر ڈیم بن گئے ہوتے تو پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔

لوگ پانی کو ترس نہ رہے ہوتے اور نہ ہی بارشوں اور سیلاب کا پانی یوں سرعام تباہی کا باعث بن رہا ہوتا ڈیم جیسے میگا پراجیکٹس سے ہمارے سیاستدان بے خبر ہیں . اور وہ اپنے سیاسی معاملات اور سیاسی اختلافات میں اتنے زیادہ الجھے ہوئے ہیں کہ انکی توجہ صرف ایک دوسرے کو نااہل کروانے، حکومت کو گرانے۔ ایک دوسرے کو میدان سیاست سے باہر کرنے تک محدود ہے۔ایسے میں بارشوں اور سیلاب متاثرین اور ڈیموں کی تعمیر کی جانب کون توجہ مرکوز کرے گا. دعا گو ہون کہ اللّٰہ پاک متاثرین سیلاب کی جان ومال کی حفاظت کرے اور ھمارے حکمرانوں اور میڈیا کو بھی ہدایت دے تاکہ وہ بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں احسن انداز مین ادا کر سکیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں