صاحب اِک روٹی ملے گی؟
ازقلم: محمد آصف سلطانی
صاحب جی آپ کا کام ہوگیا امید ہے کار ورکشاپ تک با آسانی چلی جائے گی۔قیس نے برستی بارش میں کار کے شیشے میں جھانکتے ہوئے کہا، قیس جو کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کی عمر ابھی ?۷ سال ہی تھی۔ قیس ایک زہین لڑکا تھا پر مالی طور پہ اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا
خدا خدا کر کے اس نے جماعت نہم کا امتحان پاس کیا تھا وہ فرسٹ ٹائم سکول جاتا تو سیکنڈ ٹائم سکول سے واپسی پر اس کی ماں کرارے چھولے بنا کے دیتی تو قیس کبھی پارکوں میں تو کبھی کھیل کے میدانوں میں بیچنے چلا جاتا۔ وہاں سے روزانہ کی جتنا بھی آمدن ہوتی تو تمام تر رقم قیس اپنی والدہ کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ اس کی والدہ نے اس معقول رقم سے گھر کا نظام چلا رکھا تھا۔ قیس کے والد کینسر کے مریض تھے
اور ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں جو اس سے بہت چھوٹے تھے۔ قیس جو کہ بڑے ہونے کے ناطے گھر کی تمام تر زمہ داری اس پہ عائد تھی۔کچھ دن تو اسطرح نظامِ زندگی چلتا رہا مگر حکومتِ وقت کی بیحسی، ڈالر کی بلند پرواز اور موجودہ حکمرانوں کی درندگی و ناکس حکمت اعملی کے بنا بیتحاشہ مہنگائی کے عوض گھر کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات پورے کرنا اور تعلیم جاری رکھنا قیس کیلیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا تھا
۔ گھر کے حالات دن بدن نازک ہوتے چلے جا رہے تھے ایک دن کھانا پکتا تو دو دو دن تک فاقے، بیبسی اور غربت کا ناچ ہوتا۔ بلآخر قیس نے تعلیم کو خیر باد کہنے کا سوچا اور فُل ٹائم چھولے بیچنے کا پروگرام بنا لیا۔
ایک روز شام کا وقت تھا ٹھنڈی ہوا کے ساتھ تیز بارش چل رہی تھی ایک اجنبی شخص سرکاری نمبر پلیٹ لگی کار پہ سوار بیچ روڑ پریشانی میں مبتلا بیٹھا سوچ رہا تھا۔ قیس چھولے لیے روڑ کے کنارے کھڑا یہ منظر بہت دیر سے دیکھ رہا تھا۔وہ شخص کبھی گاڑی سے باہر نکل آتا تو کبھی اندر بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا مگر گاڑی سٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
قیس آگئے بڑھا اور مسئلہ جاننے کی کوشش کرنے لگا،خیریت صاحب کیا ہوگیا؟بہت دیر سے آپ پریشان نظر آ رہے ہیں۔کچھ نہیں چھوٹے بس شاید بارش کی وجہ سے گاڑی کرنٹ چھوڑ گئی اور سٹارٹ نہیں ہو پا رہی۔
قیس: صاحب آپ دوبارہ سٹارٹ کریں میں کچھ دھکا لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔صاحب: اوکے۔ہاں ہاں صاحب جی سٹارٹ ہو گئی گاڑی آپ کا کام ہوگیا،
صاحب: سُنو اِدھر آو تم،
جی صاحب جی۔۔۔۔
کیا کرتے ہو تم اور نام کیا ہے تمہارا؟
جی صاحب میرا نام قیس ہے۔ اور میں کرارے چھولے بیچتا ہوں یہاں۔
پڑھائی کیوں نہیں کرتے تم؟
صاحب پڑھائی کرنے سے کیا ہوگا؟
صاحب جو کہ ایک پارلیمانی ممبر تھے جنہوں نے غربت فقط تصویروں میں دیکھ رکھی تھی جن کے ایک وقت کے کھانے کا بل کئی ہزاروں روپے تک بنتا تھا۔
اپنے فلسفیانہ انداز میں قیس کو سمجھانے لگے چھوٹے پڑھو گے، تو ہی آگے بڑھو گے۔
پڑھائی سے مقام ومرتبہ بڑھتا ہے، پڑھائی سے ہی بندہ چیف جسٹس سے لے کر آرمی چیف، آرمی چیف سے لے کر وزیراعظم جیسے عظیم عہدوں پر فائز ہوتا ہے۔ بیٹا کئی ایسے مسلمان سائنسدانوں کے نام تعلیم ہی کی وجہ سے نمایاں ہیں،
جن سے تمام دنیا معترف ہے، ان میں محمد بن موسیٰ، الخوارزمی، ابن سینا، عمر خیام، البیرونی، ابن خلدون اور ابن الہیثم قابلِ ذکر ہیں۔ تعلیم، نظام زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔
یاد رکھنا چھوٹے تعلیم ایک زیور ہے۔
پڑھو اور ملک وقوم کا نام روشن کرو،
پڑھائی سے ہی انسان کا مقام بلند ہوتا ہے۔
لوگ جُھک کے سلام کرتے ہیں۔
اور عزت ملتی ہے،
قیس نے بہت دیر تلک برستی بارش میں صاحب جی کی باتیں سننے کے بعد حسرت بھری نگاہوں سے ایک سوال کیا اور صاحب کو ہی خاموش کرا دیا۔
صاحب روٹی سکون کی ملے گی؟