ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 40

اداروں کے صبرکا امتحان نہ لیاجائے !

اداروں کے صبرکا امتحان نہ لیاجائے !

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ لی ہے ،انیوں نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 26 سال قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی ہے ،میں نے عدالتی کارروائی کے دوران محسوس کیا ہے کہ میں نے ’سرخ لکیر‘ عبور کر لی ہے،

اگر میں نے غیر دانستہ طور پر ’سرخ لکیر‘ عبور کرلی ہے تو اس کے لیے معافی مانگنے پر تیار ہوںاورعدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا، عدالت ان کی معافی سے قدرمطمئن نظر آتی ہے، تاہم انھیں عدالت میں اپنی معافی کے حوالے سے بیان حلفی داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس عدالتی کاروائی کے بعد جہاں پی ٹی آئی کارکنان مطمیََن دکھائی دیئے،،وہیں اتحادیوں کی ساری اُمیدوں پر پانی پھر گیا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان قومی سطح کے سیاسی رہنما اور ملک کے سابق وزیر اعظم ہیں،تاہم عدالت عالیہ میں ان کے خلاف جاری توہین عدالت کی کارروائی کے باعث جو خطرے اور نا اہلی کی تلوار لٹک رہی تھی، عدالت عالیہ میں ان کے غلطی کے اعتراف اور ندامت کے اظہار کے بعد بظاہرایسا لگتا ہے

کہ جیسے خطرہ ٹل گیا ہے ،عدالیہ کی جانب سے فرد جرم عائد کئے جانے کی کارروائی فی الحال روک دی گئی ہے، اس کیس پر فیصلہ تو آئندہ پیشیوں پر ہی ہوگا کہ عدالت معاف کرتی ہے کہ فرد جرم عائد کرتی ہے ،لیکن بظاہر عمران خان کی جانب سے معافی مانگنے کے بعد ایسا ہی لگ رہا ہے کہ نااہلی کا خطرہ ایک بار پھر ٹل گیا ہے ۔
یہ پیش رفت خوش آئند ہے کہ عمران خان نے دیر یاسویر عدالت سے معافی مانگ لی ہے، ورنہ گزشتہ دو سماعتوں کے دوران معاملہ جو رخ اختیار کر رہا تھا، اس کے مضمرات تو عمران خان کے لیے بہت سنگین ہوسکتے تھے ، یہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا پہلا موقع نہیں ہے ،

اس سے قبل بھی عدالت سے متعلق ’’شرمناک‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر تو ہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرپڑا تھا، انہوں نے تب بھی غیر مشروط معافی کے ذریعے اپنی غلطی کا ازالہ کیا تھا، اس کے بعدتوقع تھی کہ عدالتی معاملے میں اپنے وعدہ کے مطابق محتاط رویہ اختیار کریں گے، مگر اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ جوش خطابت میں فاضل عدالتوں اور دوسرے محترم آئینی و قانونی اداروں سے متعلق غیر محتاط زبان اور غیر ذمہ دارانہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیںاور اس کا انہیں خمیازہ بھی بار بار بھگتنا پرتا ہے۔
یہ ہماری ساری سیاسی قیادت کا ایک وطیرہ رہا ہے کہ اپنی سیاسی محاز آرائی میں ساری حدود پار کر جاتے ہیں ، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے مد مقابل سیاسی رہنمائوں کو جس طرح کے القابات سے نوازتے ہیں اور آئینی قومی اداروںکے سر باہان پر جس انداز سے تنقید کرتے ہیں، کیا قومی رہنما ئوںکے شایان شان ہے،

ہمیں نہ صرف یک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال رکھناچاہئے ،بلکہ ریاستی اداروں کی توقیر پر بھی حرف آنے نہیں دینا چاہئے، یہ سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری ہی نہیں ،بلکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی لازم ہے کہ سیاسی قیادت اپنے روئیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں تبدیلی لائے ،تاکہ انہیں اپنی کار گزاریوں پر شرمندہ نہ ہو ناپڑے ،مگر یہاں غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے انہیں دہرانی کی ایسی عادت پڑی ہے

کہ چھوٹ ہی نہیں رہی ہے۔اگر عمران خان اپنے رویہ پر اظہار ندامت کے بعد عدالتی سزا سے محفوظ رہتے ہیں تو یہ ان کی خوش قسمتی ہو گی، ورنہ یہاں تو ایسی مثالیں موجود ہیں کہ تو ہین عدالت کے جرم میں وزیر اعظم کو نہ صرف اپنے منصب سے محروم ہونا پڑا ،بلکہ برسوں کے لیے عملی سیاست سے نا اہلی کی سزا بھی بھگتنا پڑی ہے، عمران خان ابھی مقدمہ سے مکمل طور پر فارغ نہیں ہوئے، عدالت نے انہیں تحریری بیان حلفی داخل کرنے کی ہدایت کی ہے، اس کے لیے 29 ستمبر تک کی مہلت دی گئی
ہے، اس تحریری بیان کا جائزہ تین اکتوبر کی سماعت کے دوران لینے کے بعد عدالت اپنا حتمی فیصلہ سنائے گی، تاہم اس پیشی پرکارروائی کے دوران عدالت نے عمران خان کی جانب سے معافی طلبی اور اظہار ندامت کے بعد جس اطمینان کا اظہار کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ بخیر و خوبی نمٹ جائے گا۔
اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ، اس میں مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ، اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت محاذ آرائی کی بجائے اکٹھے ہو کر قومی مفاد کے بارے سوچے اور ملک کوبحرانی صورتحال سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے،سیاسی محاذ آرائی اور رسہ کشی کسی اور وقت بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اس وقت ملک کو منجدھار سے نکالنے کے لیے یکجہتی کے ساتھ قابلِ عمل حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، اس بات کا ملک کی سیاسی قیادت کو بھی جائزہ لینا چاہیے

کہ ان کی اداروں کے خلاف کی جانے والی باتوں سے ملک کاکوئی بھلا نہیں ہورہا ،بلکہ اس سے ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا فروغ پا رہا ہے،اس صور حال میں ادارے بڑے تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں ،لیکن اداروں کے صبرکا اتنا امتحان نہ لیاجائے کہ صبر کا پیمانہ ہی لبریز ہو جائے،ملک کی سیاسی قیادت کو بدلتی صورتحال کا بغور غور جائزہ لیتے ہوئے ایسے افراد سے جان چھڑانی چاہئے ،جو کہ انہیں اداروں سے محاذ آرائی کے مشورے دیے کر سیاست کی بند گلی کی جانب دھکیل رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں