56

آزاد کشمیر کے بدقسمت سکولز

آزاد کشمیر کے بدقسمت سکولز

“تحریر:محمد نصیر (عباسپور) “
8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ کو سترہ سال مکمل ہورہے ہیں۔یہ قیامت خیز دن ستر ہزار سے زاید لوگوں کے لیے پیام اجل لے کر آیا۔ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہوئے اور تیس لاکھ سے اوپر لوگ بے گھر ہوئے۔متاثرہ علاقوں کا سکول انفراسٹرکچر سب سے زیادہ تباہی سے دوچار ہوا۔یونیسیف کی سٹڈی کے مطابق اٹھارہ ہزار بچے زمین بوس ہونے والے تعلیمی اداروں کے ملبے تلے آکر شہید ہوئے

۔ان تباہ حال تعلیمی اداروں میں سے بمشکل پچاس فیصد کچھ عالمی اداروں کی مدد سے تعمیر ہوئے’ بقیہ آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں۔جب یہ قیامت صغریٰ برپا ہوئی’ اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں سردار سکندر حیات کی قیادت میں مسلم کانفرنسی حکومت قائم تھی۔اس وقت سے آج تک موجودہ وزیراعظم کو شامل کر کے نو وزراءاعظم اس مسند جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں اور چوتھی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہے

۔2011 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لا کر اور یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھا کر بلا شبہ بہت اچھا کام کیا اور کسی حد تک اس ضمن میں محرومی کا ازالہ کیا۔2016 میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اساتذہ کی تعیناتی کے حوالے سے میرٹ قائم کرنے کی سعی کی ‘ جس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔مگردوسری جانب ان دونوں ادوارِ حکومت میں بھی سکول انفراسٹرکچر پر توجہ نہیں دی گئی۔2021

میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ گورنمنٹ کی ترجیحات میں بھی سکولوں کی تعمیر کہیں شامل نہیں۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ تمام انتخابات میں عوام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔نہ آج تک سننے میں آیا کہ سکولوں کی عدم تعمیر کو لے کر کہیں احتجاج کیا گیا ہو۔پورے آزاد کشمیر کی طرح ہمارے حلقہ انتخاب عباسپور میں بھی اکثریتی سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے

۔زلزلہ سے متاثرہ گنے چنے سکول ہی دوبارہ تعمیر ہو سکے۔عباسپور سٹی گرلز ہائی سکول ‘ گرلز اور بوائز ہائی سکول کھلی درمن ‘ بواہز ہائی سکول مرچکوٹ سمیت درجنوں تعلیمی اداروں میں کھلے آسمان تلے تدریس کا عمل سر انجام دیا جارہا ہے۔عباسپورین سوشل گروپ کے نام سے موسوم ہماری سماجی تنظیم کے پلیٹ فارم سے بارہا سکولوں کی عدم تعمیر کے معاملے کی جانب سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور توجہ دلانے کی کوشش کی گئی

مگر حکمران تو الگ عوام نے بھی کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سکولوں کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔عوام صدائے احتجاج بلند کریں کیونکہ ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے اور سکول اس سلسلے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں