دہشت گردی کیخلاف عوامی احتجاج !
کہ ایک طرف عوام دہشت گردی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شاکی ہیںتو دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومت پر بھی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،یہ عوامی مظاہرے اس امر کا ثبوت ہیں کہ امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے عوام کی امید وں پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ گزشتہ دو عشروں سے جاری دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کی قیمت پاکستان میں سب سے زیادہ صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں نے ادا کی ہے،یہ علاقے طویل عرصہ تک دہشت گردوں کی گرفت میں رہے ہیں،دہشت گرد عناصر کئی طرح کے مطالبات پیش کر کے حکومت وقت کو الجھاتے اور اپنے لئے گنجائش پیدا کرتے رہے ہیں،آخر کار سکیورٹی فورسز کو آپریشن کرنا پڑا تھا،اس کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ ملک سے دہشت گردی کے خلاف عظیم کامیابی حاصل کر لی گئی
اور قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا ہے، لیکن ایک بار پھر دہشت گردی، بم دھماکوں اور جبری گم شدگی کے واقعات شروع ہوگئے ہیں۔یہ امر قابل تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں کی موجود گی میں ایک بار پھر تشدد پسند اپنی کارروائیوں میں سرگرم نظر آنے لگے ہیں، دہشت گردانہ کارئیوں کے ساتھ لوگوں کو اغوا کیا جارہا ہے
،اس حوالے سے اگست میں لوئر دیر میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے ملک لیاقت خان کی گاڑی عسکریت پسندوں کے حملے کی زد میں آگئی،اس حملے میںایم پی اے شدید زخمی اور تین دیگر افراد جاں بحق ہو گئے تھے،اس کے کچھ دن بعد ایک ویڈیو منظر عام پر آئی کہ جس میں ایک شخص ٹی ٹی پی کا رکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک سکیورٹی افسر سے پوچھ گچھ کرتے دکھایا گیا،افسر کے ہاتھ واضح طور پر پیچھے بندھے ہوئے تھے،
اس میں مغوی کہہ رہے تھے کہ عسکریت پسند ان کے ساتھ دو دوسرے کئی افراد کو اغوا کر چکے ہیں ،دوسرے اغوا کئے گئے افراد میں ایک ڈی ایس پی اور ایک سپاہی تھا، یہ سب انتہائی پریشان کن اشارے ہیں کہ جنہوں نے خیبر پختونخوا کے عوام کو نہ صرف شدیدخوف زدہ کر دیا ہے، بلکہ انہیں شدیدعدم تحفظ کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ایک بار پھرحکومتی رٹ کو آزمایا جا رہا ہے، ایک بار پھر تسلسل کے ساتھ دہشت گرادانہ کارئیاں کی جارہی ہیں ،اس بار متشدد انتہا پسندوں کو ابتدائی مرحلے پر ہی روکنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے،ملا فضل اللہ کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد سے اس کی تنظیم کے دیگر افراد افغانستان کے صوبہ کنڑ میں پناہ لئے ہوئے ہیں ،اس کی سرحد دیر سے ملتی ہے،یہ خیال کیا جاتا ہے
کہ یہاں سے تخریب کار پاکستان میں داخل ہوتے ہیں،لیکن حکومت اورسیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں ؟ حکومت کی جانب سے ایک طرف ٹی ٹی پی سے امن معاہدے کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات کی لہر میں اضافہ دکھائی دیے رہا ہے ،پاکستان پہلے ہی گوناگوں مشکلات کا شکار ہے ،عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھنے سے مزیدمسائل پیدا ہو سکتے ہیں،اس وقت بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ قبا ئلی علاقہ جات میں ہر صورت امن بحال رکھنے کا انتظام کیا جائے۔
بلا شبہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بیش بہا قربانیاں دے کر نہ صرف ملک بھر میں امن کی راہ ہموار کی تھی ،بلکہ قبائلی علاقہ جات میں ترقیاتی کام بھی شروع کروائے تھے،تاہم ہمارے دشمنوں کو منظور نہیں ہے کہ ملک میں امن قائم رہے ،اس لیے ایک بار پھر تخریب کاروایاںکروائی جارہی ہیں،اس دہشت گردی کا پاک فوج کے جوان بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں ، اللہ تعالی سے دْعا ہے کہ ایک بار پھر سے نہ صرف کامیاب ہو جائیں
،یہ وقت سیاسی انتقام لینے کا ہے نہ زبردستی عوامی احتجاج روکنے کا ہے ،یہ وقت صوبہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میںحکومتی رٹ قائم اور بحال کرنے کا ہے اور حکومتی رٹ تبھی قائم ہو گی کہ جب ملک بھر سے دہشت گردوںکا مکمل خاتمہ کر کے قیام امن کو یقینی بنایا جائے گا