پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 37

ضمنی انتخاب کے نتائج پر مستقبل کا منظر نامہ !

ضمنی انتخاب کے نتائج پر مستقبل کا منظر نامہ !

ملک بھر میںضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ایک طرف اسمبلیوں سے استعفے دینے والے ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیںتو دوسری جانب سارے استعفے قبول کر نے کی بجائے مرضی کے حلقوں سے استعفے قبول کر کے ہوم گرائونڈ پر میلہ لوٹنا چاہتا ہے ،اتحادی حکومت ایسے حربوں سے اپنے مقصد میں کس حدتک کامیاب ہوتی ہے ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن ایک بات واضح طور پر نظر آرہی ہے

کہ حکومت اور اپوزیشن کا صرف اس بات پر اتفاق ہے کہ چیزیں الجھتی ہیں تو انہیں سلجھانے کی ضرورت نہیں ہے،آئین کی کسی کو پرواہ ہے نہ پارلیمانی روایات کی پاسداری کا خیال ہے ،ہر معاملے پر سیاست ہو رہی ہیںاور کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس سیاست کی قیمت کیا ہے، جو کہ ملک اور عوام نے ہی ادا کرنی ہے۔
سیاسی قیادت کی ترجیح کبھی عوام نہیں رہے ہیں ،ہردور میں عوام کو صر ف اپنے حصول مفاد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ،عوام کل سیاسی قیادت کی نااہلیوں کا سارا بوجھ اُٹھاتے رہے اور آج عوام اپنے مخالف سارے فیصلوں کا بوجھ اُ ٹھا رہے ہیں ،اس صورت حال میں اتحادی حکومت کو چاہئے تھا کہ عوام کی آواز پر عام انتخاب کا اعلان کرتے ،لیکن حکومت نے بڑی ہو شیاری سے ضمنی انتخابات کا ڈھول بجادیا ہے

، ملک میں پہلی بار بیک وقت نوں نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو نے جارہے ہیں ہے ،تاہم اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر مرکوز ہے کہ جہاں عمران خان نے خود میدان میں اترتے ہوئے اپنے مخالفین کو بڑا چیلنج دیے رکھا ہے۔
تحریک انصاف قیادت سات نشتوں پر انتخاب لڑتے ہوئے اپنے تمام حریفوں کو تاثر دینے میں بڑی حدتک کامیاب رہے ہیں

کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی قوم کو بھی پیغام دیا جارہاہے کہ پی ٹی آئی قیادت اکیلے ہی تمام مخالف سیاسی قیادت کے مدمقابل ہے،لیکن کیایہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ یہ فیصلہ ان کے لیے نقصاندہ توثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات ایسے موقع پر اُٹھائے جا رہے ہیں کہ جب تواتر کے ساتھ متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد انہیں مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔
اگر چہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم ہیں ، جب کہ مزید آئے روزبننا ئے جا رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے، لیکن زمینی حقائق کے ساتھ بدلتے حالات میں بھی عمران خان کی مقبولیت میں آضافہ ہی ہو رہا ہے،جبکہ حکمراں اتحاد ی بالخصوص (ن )لیگ قیادت کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے،

مسلم لیگ( ن) قائدین جہاں بھی جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی دکھائی دیتی ہیں، اس وجہ سے اکثر( ن) لیگی قیادت عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں، جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے و احتجاج نہ صرف زور وشور سے جاری ہیں،

بلکہ عوام کی پزی آرائی میں دن بدن آضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔عوام میں انتہائی مقبولیت کے باوجود پی ٹی آئی قیادت کیلئے انتخابی معرکہ اتنا آسان نہیں ہے ،کیو نکہ حکومت نے ایسے حلقوں سے استعفے منظور کیے ہیں کہ جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ نہیں رہا ہے ،اگر سابقہ انتخابی نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا ،بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا

،کیونکہ گزشتہ انتخابات میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے ،لیکن اس ضمنی الیکشن میں تمام مخالف جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا،اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے بھی ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی، کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کو عوام کو ایک خوش کْن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔
تحریک انصاف بڑے عرصے سے انتخابی سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور سیاسی میدان میں اتحادیوں کو مات دینے کیلئے بالکل تیار ہے ، تحریک انصاف قیادت کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ضمنی انتخاب میں جیت یقینی نظر آتی ہے ،اگراس ضمنی انتخاب میں عمران خان نے اپنی سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد اپنے اندرپہلے ہی پڑی دراڑوں کے باعث مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا،اس کے بعد عمران خان اپنی بھرپور جیت کے ساتھ اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر تے ہیں

تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گااور اتحادی حکومت کو بہر حال ضانا پڑے گا،اس لیے ضمنی انتخاب تحریک انصاف قیادت اور حکومتی اتحاد کے لیے جہاں ایک بڑا معرکہ ہے، وہیں اس کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جارہا ہے ،اس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع ہوچکی ہیں،بس ضمنی انتخاب میں کسی ایک کی جیت کے اعلان کا انتظار ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں