پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 68

سیاست میں مداخلت کے الزم کی مذمت !

سیاست میں مداخلت کے الزم کی مذمت !

پا کستانی سیاست زیادہ تر الزام تراشی پر ہی چل رہی ہے ،سیاست میں کبھی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں توکبھی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ سیاست میںمداخلت کرتے ہیں ،لیکن یہ بات یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ سیاست دان خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کوسیاست میں مداخلت کرنا پڑتی ہے

،اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور سیاسی کشیدگی و محاذ آرائی اس قدر شدید ہو تی جارہی ہے کہ ایک کا منہ مشرق کی طرف تو دوسرے کا مغرب کی جانب ہے،اس کے باوجود دونوں ہی کوشش میں لگے ہیں کہ مقتدر حلقوں کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف حاصل کر لیئے جائیں ،لیکن مقتدر حلقے سیاست میں نہ صرف مداخلت سے گریزاں ہیں ،بلکہ اس عزم کو دہرارہے ہیں کہ سیاست میںکوئی مداخلت کی جائے گی

نہ کوئی کردار ادا کیا جائے گا ۔اس میں شک نہیں کہ افواج پاکستان عوام کا ہی حصہ ہیں اور عوام کو بے انتہا عزیز بھی ہیں، لیکن عوام چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے،، تر جمان پاک افواج بارہا یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل ہے نہ اسے سیاست میں گھسیٹا جائے ، آرمی چیف نے بھی ایک بار پھرقوم کو یقین دلایا ہے کہ مسلح افواج نے خود کو سیاست سے دور کرلیا ہے

اور وہ وہ 5 ہفتوں بعد ریٹائر ہو جائینگے اورکوئی ایکسٹینشن نہیں لیں گے،آرمی چیف کی یقین دھانی عوام مانتے ہیں کہ فوجی قیادت نیوٹرل ہو گئی ہے، مگر سیاسی قیادت ماننے کے لئے تیار نہیں ہے،اس لیے دبے الفاظ میں واویلا مایاجارہا ہے ، یہ ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی ایسے ہی نہیں کی جاسکتی، اگر کوئی کر رہا ہے

تو دی جانے والی رعایت کا فائدہ ہی اٹھا رہا ہے۔ریاستی اداروں کے خلاف بیانات دینے والوں کی ڈیل اور ڈھیل مقتدرہ کے ہاتھوں میں ہے، وہ جب چاہیں ڈیل اور ڈھیل روک سکتے ہیں، انہوں نے ایسا بار ہا کر کے بھی دکھایا ہے، عوام بھولے نہیں ہوں گے کہ ایک وقت تھا کہ جب مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی قیادت نہ صرف فوج کے خلاف باتیں کرتے تھے، بلکہ فوج کے خلاف مہم جوئی بھی شروع کر رکھی تھی،

لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور اب وہی لوگ ریاستی داروں کے حق میں بیانات دے رہے ہیں، یہاں پر رجحان عام ہے کہ جو سیاسی پارٹی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، اسے کبھی فوج پر تنقید کی نہیں سوجھتی، لیکن اپنے اقتدار کا خاتمہ ہوتے ہی ہر ادارے کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں، یہ بات فوجی ترجمان جانتے ہیں اور عوام کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ جتنا مرضی باور کروالیا جائے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، مگر ان کا سیاست سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رہتا ہے۔
یہ پا کستانی سیاست کا مسئلہ رہا ہے کہ سیاسی قیادت مقتدرہ کے سائے تلے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیںاورقتدار میں آنے کے بعد ایک خاموش معاہدہ کر لیتے ہے کہ تم میرے پیچھے بھاگو نہ میں تمہاری طرف آئوں گا،سیاسی قیادت مقتدرہ کے ٹائوٹ بن کر کرپشن کرتے ہیں اور عوام کے حقوق بھی پامال کرتے ہیں ،لیکن جب قتدار سے باہرنکال دیے جاتے ہیں تومقتدر حلقوں کے خلاف طوفان کھڑا کردیتے ہیں،

وہ ایک طرف جھوٹ، پروپیگنڈہ، من گھڑت بیانا ت دیتے ہیں تو دوسری جانب پس پردہ دوبارہ ڈیل کرکے اقتدار میں آنے کے خواہش مند رہتے ہیں ، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے، سیاست میں عدم مداخلت کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں اب راز نہیں رہی ہیں، حکومت اور اپوزیشن قیادت بے تاب ہیں کہ مقتدر حلقوں کا صرف ان کے ساتھ تعاون ہو جائے ، اس رسہ کشی میںکوئی ایک سیاسی پارٹی کچھ نہ کچھ مفاد لے جاتی ہے،

مگراس میں ملک وقوم کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔اس ضمن میں کوئی ابہام نہیں رہاہے کہ آرمی چیف نے اپنے منصب پر مزید توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے اور فوج کے کسی سیاسی کردار کی نفی کرکے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو تقویت پہنچائی ہے، اس وقت ملک کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں سرحدوں پر ہمہ وقت چوکس رہنا اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانا عساکر پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے،

اس فکرمندی کے تحت ہی آرمی چیف بار ہا قومی مفادات کی حفاظت اور فروغ کیلئے قومی ہم آہنگی پر زور دیتے رہتے ہیں، سیاست دانوں کو بھی سول امور میں فوج کے کردار کی توقع رکھنے سے بہرصورت گزیر کرنا چاہیے، ماسوائے قدرتی آفات اور نقص امن کی انتہائی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کہ جس کی آئین سول قیادت کو اجازت دیتا ہے

کہ وہ فوج کی مدد طلب کر سکتے ہیں۔پا کستانی سیاسی قیادت ایک طرف ماورائے آئین مقتدر حلقوں سے تعاون کی خوہشمند رہی ہے تو دوسری جانب مود الزام بھی ٹھراتی ہے،تاہم پاکستانی عوام وطن عزیز کے دفاع میں قربانیاں دینے والی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور سیاسی جماعتوںکے منفی پراپیگنڈے کی مذمت کرتے ہیں،سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ان کا وجود ریاست اور سیاسی نظام ہی کی وجہ سے قائم ہے اور اگر انھوں نے اپنے مفاد کے پیش نظر ریاستی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انھیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیے

کہ ملک میں افراتفری پھیلانے کی بجائے اپنا آئینی و جمہوری کردار ادا کرے اور عوام کو انتشار سے بچائے، عوام کو بھی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر کبھی ریاستی اداروں پر بے جاتنقید نہیں کرنی چاہیے، اگر فوج نے سیاست سے دور رہنے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو اس پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگا کر زیر بحث لانا، ملک و قوم کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں