تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بالآخر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے،اس سیاسی احتجاج سے حکومت 31

نفرت کی سیاست کا مکالمے سے خاتمہ !

نفرت کی سیاست کا مکالمے سے خاتمہ !

تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بالآخر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے،اس سیاسی احتجاج سے حکومت اتنی خوف زدہ ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ گئی، لیکن عدالت عظمیٰ نے حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے، قانون کے مطابق احتجاج سب کا حق ہے اور حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے،اس کے بعد حکومت دفاعی پوزیشن میں چلی گئی ہے

،لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ محض احتجاجی مظاہروں سے حکومت تبدیل نہیں ہوگی ،اس لیے ا حتجاجی تحریک کے باوجود پس پردہ مذاکرات جاری ہیں ، اس کی تصدیق ادارے بھی کررہے ہیں، اگرسیاسی قیادت نے نظریاتی سیاست کے تحت مکالمہ جاری رکھاتو سیاسی بحران سے نکل آئیں گے، لیکن اگر اس سیاسی جنگ کو مفادات اور حکومتی طاقت کا ذریعہ بنا یا تو اس سے مزید انتشار ہی بڑھے گا جوکہ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں ایک طرف مذاکرات کی باز گشت سنائی دیتی ہے تو دوسری جانب ایک دوسرے کے ساتھ اداروں پر بھی الزام تراشیاں جاری ہیں ،یہ ملکی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ سیاسی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے باعث حاضر سروس آئی ایس آئی چیف کو نیوز کا نفرنس کرنا پڑی ہے

،اس نیوز کانفرنس میں آئی ایس آئی چیف کا کہنا تھا کہ ایک طرف عساکر پا کستان کے سر برہ کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک کی توسیع کی پیشکش کرتے ہیں تو دوسری جانب آئینی کردار ادا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اس موقع پر حقائق کا دارک انتہائی ضروری ہے ،تاکہ فیکٹ اور رائے میں تفریق کی جاسکے اور سچ سب کے سامنے لایا جاسکے ،آئی ایس آئی چیف کے بیان کردہ حقائق اپنی جگہ بالکل درست ہیں ،لیکن عوام اتنے بھولے ہیں نہ حقائق سے اتنے غافل ہیںکہ سیاسی قیادت کے بہکائوئے میں آجائیں ، عوام پاک افواج سے بے انتہا احترام کرتے ہیں ،لیکن عوام چاہتے ہیں

کہ ان پر کسی کو زبردستی مسلط کیا جائے نہ انتخاب کا حق چھینا جائے ،عوام اپنے حق کیلئے احتجاج کرنے کے ساتھ اپنے ووٹ کے ذریعے ہی انتخاب چاہتے ہیں۔آئین پاکستان ہر کسی کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق دیتا ہے،لیکن اس آزادی اظہارکی آڑ میں انتشار کی اجازت نہیں دیتا ہے ،

اس وقت ملک مختلف نوعیت کے بحرانوں سے دوچار ہے اورکوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جیسے بطورمثال بہتر کار کردگی کے طور پر پیش کیا جا سکے،لیکن کچھ ادارے ایسے ہیں ،جو کہ ملکی نظم و نسق چلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں،ان اداروں کو مضبوط بنا کر ہی ملک کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے ،اگر سیاسی جماعتیں ،افراد اور ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کریں گے توکوئی بھی ادارہ اپنے فرائضِ منصبی کو کما حقہ ادا نہیں کر سکے گا

، ملکی مفاد میں ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ادارے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کی فضا قائم کریں ،یہ باہمی مکالمہ ہی ایک ایسا راستہ فراہم کرے گا کہ جس کے ذریعے نہ صرف حقیقی مسائل کی نشاندہی ہو گی ،بلکہ سارے درپیش مسائل کا حل بھی تلاش کر لیا جائے گا ۔
حزب اقتدار اور حزب اختلاف زبانی کلامی مکالمے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر مکالمے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ہیں،

اگر دیکھا جائے تو ہر جانب مسئلہ کا حل کم اور بگاڑ زیادہ پیدا کیا جارہاہے،اس لیے عوام میں تاثر تقویت پکڑنے لگا ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقے آئین میں پرامن اظہار رائے‘ اختلاف رائے‘ مطالبات کے لئے جمع ہونے کے حق اور غیر مقبول انتظامیہ کو تبدیل کرنے کے لئے عام انتخابات کا مطالبہ کسی صورت نہیں مانیں گے ،یہ ایساتاثر ہے کہ جو ریاست کا جمہوری مزاج تبدیل کرکے فاشزم کی طرف موڑ تا ہے ،اس بدلتے مزاج کے تداک کیلئے مکالمہ انتہائی ضروری ہے ،اس کیلئے اہم اداروں کوہی آگے بھڑ تے ہوئے

اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی اور ایک ایسے سیاسی مکالمے کا آغاز کرنا ہو گا کہ جس کے نتیجے میںنفرت کی سیاست خا کاتمہ ہو سکے ،تحریک انصاف قیادت کا عام انتخابات کا مطالبہ اتنا بڑا نہیں کہ اتحادی حکومت اسے اپنی انا اور ضد کا مسٗلہ بنا کر ملک کو انتشار کی جانب دھکیل دے، ضد اور انا ریاست سے بڑی نہیں ہونی چاہئے، اگر ایک بار ملکی مفاد کے پیش نظر خلوص نیت سے مکالمے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو سیاسی نفرتوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں