تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بالآخر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے،اس سیاسی احتجاج سے حکومت 33

لانگ مارچ اور مذاکرات !

لانگ مارچ اور مذاکرات !

تحریک انصاف قیادت اپنے لانگ مارچ کا آغاز کر چکے ہیں ، جو کہ اسلام آباد تک جاری رہے گا،اس لانگ مارچ کا مقصد ایک طرف حقیقی آزادی ہے تو دوسری جانب نئے انتخابات کے لئے موجودہ حکومت کو مجبور کرنا ہے،جبکہ حکومت واضح کر چکی ہے کہ انہیں کوئی جلدی نہیں ، انتخابات کا انعقاد ا ٓئندہ سال کے آخرتک ہی ممکن ہو سکے گا

،حکومت اور اپوزیشن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کوئی اپنے مواقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے ،تاہم تحریک انصاف قیادت کا دعویٰ ہے کہ یہ لانگ مارچ پا کستان کی تاریخ کاایک ایسا سب سے بڑا مارچ ثابت ہو گا کہ جس کے سامنے کوئی بھی مخالف طاقت ٹھر نہیں سکے گی ۔
اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ عوام میں ہر دلعزیز میں باقی سیاسی جماعتوں میں سے کوئی رہنما بھی عمران خان کامقابلہ نہیں کر سکتا

اور وہ بجا فرماتے ہیں کہ انہوں نے پچھلے چھ ماہ جتنے بڑے متواتر جلسے کیے ہیں ،اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے ،اس کے علاوہ خیبر پختون خواہ ،گلگت بلتستان اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ ان کے کنٹرول میں ہے ،اس کی وجہ سے انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے مارچ کو کامیاب بنا سکتے ہیں،لیکن اس بار بظاہر مقتدر حلقے ان کے ساتھ نظر نہیں آرہے ہیں ،مقتدرہ کی حمایت کے بغیر مارچ کا میاب بنانا

اور اپنے اہداف حاصل کرناآسان نہیں ہو گا۔تحریک انصاف نے اپنے لانگ مارچ کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیا ہے ،دعا ہے کہ یہ عنوان صرف نمائشی ثابت نہ ہو ،اس کیلئے جذبات سے زیادہ سیاسی بصیرت سے کام لینا ہو گا ،یہ فی زمانہ مسائل کے حل کا بہتر ذریعہ ہے کہ سماج اور ریاست ہر گز انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے ،اس لیے لانگ مارچ کرنے والوں کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یقینی بنانا چاہئے کہ کسی طورانتشار کا خدشہ پیدا نہ ہونے پائے ،اس کی عمران خان یقین دہانی کراتے رہے ہیں

کہ ان کا لانگ مارچ پر امن ہوگا اور وہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہی مجوزہ مقامات تک خود کو محدود رکھیں گے،تا ہم اسلام آباد میں جس طرح کے دفاعی اقدامات اور اعلانات رانا ثناء اللہ کی وزارت نے کر رکھے ہیں اس سے امید کم ہی دکھائی دیتی ہے کہ یہ مارچ پر امن رہ پائے گا۔
ملک میں ایک طرف جمہوریت مخالف قوتیں سر گرم عمل ہیں تو دوسری جانب سیاسی قیادتان کے ہاتھ میں کھولنا بنی ہوئی ہے ،سیاسی قیادت بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں استعمال کیا جارہا ہے ،اس کے باوجود استعمال ہورہے ہیں،اس سے قبل سیاسی قیادت وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کے عادی تھے ،لیکن آجکل وکٹ کے دونوں جانب دوسرے کھیل رہے ہیں ،اتحادی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ انہیں مکمل سپورٹ حاصل ہے

،جبکہ تحریک انصاف لانگ مارچ کسی حمایت کے بغیر نہیں کررہی ہے ، دونوں میں کامیابی کسے ملے گی ،اس کا دارومدابدلتے حالات پر منحصر ہے ،اگر عوام کی بڑی تعداد نکل آئے تو لانگ مارچ کامیاب ہو جائے گا اور حکومت کو جانا پڑے گا ،اگر عوام نہ نکلے تو حکومت ایسے ہی چلتی رہے گی ۔
عوام عرصے دراز سے کٹ پتلی تماشا دیکھ رہے ہیں ،اس کھیل تماشے کا بار ہا عوام کو بھی حصہ بنایا جاتا رہا اور اب بھی بنایا جارہا ہے ،لیکن اس سیاسی تماشے کی ایک غلطی اور ایک عصبیت پر مبنی فیصلہ قوم کے لئے جو پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار ہے مذید مصائب میں مبتلا کر سکتا ہے ،یہ ریاست کے لئے ہر اعتبار سے انتہائی نازک موقع ہے کہ کوئی ایسا قدم یا فیصلہ جو انتشار ،بدامنی ،فساد اور افراتفری کا سبب بن جائے،

اس سے گریز کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہو گی،لیکن حکومت ایک قدم پیچھے ہٹنے کے بجائے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے تصادم کو دعوت دیے رہی ہے ۔کیا تحریک انصاف قیادت سمجھنے کے لئے تیار ہے کہ لاہور سے راول پنڈی تک تو ان کا لانگ مارچ پر امن رہے گا،لیکن اسلام آباد میں وفاقی حکومت ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے ، اس بار تحریک انصاف قیادت پوری تیاری کے ساتھ آرہی ہے

تو حکومت بھی تیاریوں میں ہے ،دو نوںجانب سے طاقت کا اصل مظاہرہ اسلام آباد کی سر زمین پر ہونا ہے،ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء اور حکومتی وزراء اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی مفاہمت کا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں،ہمیں قوی امید ہے کہ دونوں جانب ایسے سیاستدان موجود ہیںکہ جو اس صورتحال پر یقینا دل گرفتہ ہونگے اور کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہتے ہوں گے

،وزیر اعظم نے مذاکراتی ٹیم کا اعلان کرکے ایک اچھا قدم اُٹھایا ہے ،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مذاکراتی عمل کے نتائج بھی حوصلہ افزاآئیں ،تبھی ملک وعوام سیاسی عدم استحکام و انتشار سے نجات حاصل کر پائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں