کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے!
تحریک انصاف قیادت اپنے قافلے کے ساتھ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں تو حکومت نے بھی کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر رینجرز تعینات کردی ہے، اس صورت حال میںجہاں ابھی تک کئی معاملات میں عمران خان فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، وہیں حکومت کے لیے بھی فیصلہ کرنا ا تنا آسان نہیںہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کوروکنا ہے کہ آنے دینا ہے،
تحریک انصاف قیادت اپنے لانگ مارچ کا شیڈول بدلتے ہوئے عصابی دبائو بڑھارہی ہے ،جبکہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے ،اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ فیصلے کہاں پر ہونے ہیں، اگر حکومت نے سارے معاملات خود طے کرنے ہیں تو ان کے لیے آسان ہے اور اگریہ فیصلے کسی اور نے کرنے ہیں تو اس پر عملدرآمد حکومت کیلئے مشکل ہو گا،کیو نکہ اس کے نتائج سے براہ راسست حکومت نے ہی متاثر ہونا ہے۔
اس بدلتی صورت حال میں اتحادی حکومت ایک طرف مذاکرات کی دعوت دیے رہی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف قیادت کے دو مین مطالبات ماننے سے ہی انکاری ہے ،اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں پائے گا اور اس لڑائی میں معیشت اور عوام چھاڑیوں کی طرح پامال ہوتے رہیں گے
،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بار ہا ڈرا نے دھمکانے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کو اتحادیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں، اس پیش رفت کیلئے حکو متی رویئے میں کہیں خلوص دکھائی دیتا ہے نہ ہی سنجیدگی نظر آرہی ہے، اگر سیاست میں سیاسی کفتگو کو واقعی آگے بڑھانا ہے تو سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کو سبق سیکھانے کی ذہنیت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہو گا ۔
ہمارے ہاں سیاست ذاتیات سے ذاتی دشمنی تک جا پہنچی ہے ،سیاست میں ایک دوسرے پر تنقید بری نہیں
،لیکن یہاں تنقید کی بجائے الزام تراشیاں ہورہی ہیں ،ایک دوسرے کیلئے عدم برداشت اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا درکنار دیکھنا بھی گواراہ نہیں ہے ،حزب اقتدار اور حزب اختلاف دست گریباں ہیں اور کوئی اصلاح حوال کی خاطر سوچ بچار کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،اس میں حکومت کی زیادہ زمہ داری بنتی ہے کہ ملک کو سیاسی بحران سے نجات دلائے ،ملک میں امن و امان کو یقینی بنائے
اور ہنگامہ آرائی کا ماحول برپا نہ ہو نے دیے ،لیکن اگر حکومت دور اندیشی کی حکمت عملی اپنانے کے بجائے سیاسی مخالفین ہی کی طرح جذابات کی لہروں پر سوار ہو کر محاذ آرائی بڑھائے گی تو اپنے مینڈیٹ کے تقاضوں کو کبھی پورا نہیں کر سکے گی ،حکومت کی جانب سے عوام کیخلاف طاقت کا استعمال کبھی کار گر ہوسکا نہ کوئی سیاسی جماعت اس کی متحمل ہوسکتی ہے ،کیو نکہ عوام ہی سیاسی جماعتوں کی قوت ہیں اور عوام ہی اقتدار اپنے منتخب نمائندوں کے حوالے کرتے ہیں۔
حزب اقتدار اور حزب اقتدار کے ساتھ دونوں جانب عوام کھڑے ہیں ،سیاست میں سیاسی اختلافات ضرور رکھیں کہ نظریاتی اختلاف بھی جمہوریت کی ضرورت ہیں ،مگر اپنے اختلافات کو اتنا نہ بڑھائیں
کہ ایک دوسرے کے ساتھ ملانا اور بیٹھنا بھی مشکل ہو جائے ،اس وقت بڑھتے سیاسی انتشار میں ٹکرائو یقینی نظر آرہا ہے ،یہ ٹکرائوخطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے، عوام کو نقصان پہنچنے کی صورت میں لیڈر ان پر ہی ذمہ داری عائد ہوگی،حکمران اتحاد خاص کر میاں نواز شریف طے کر چکے ہیں کہ کسی بھی صورت عمران خان کا عام انتخابات کا مطالبہ نہ مانا جائے، وہ اہم ترین پوسٹ پر تقر ر کو بھی آخری دن تک التوا میں رکھنا چاہتے ہیں اورآلہ اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو فیس سیونگ نہیں دی جائے گی،
پی ڈی ایم کی منصوبہ بندی نظر آرہی ہے کہ عمران خان کو تھکایا جائے اور مسلسل سیاسی ناکامی کا تاثر مستحکم کیا جائے، اگر ایک مقبول لیڈرکے ساتھ ایسا رویہ رکھاجائے گا کہ جس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے اورنوجوانوں میں بھی زبردست اثر رکھتا ہے ، اسے دیوار سے لگایا جائے گا ، سیف ایگزٹ نہیں ملے گا تو پھر معاملہ کسی بڑی تباہ کن نہج پر بھی جا سکتا ہے،اس لیے بہتر یہی ہے کہ ادارے خاموش تماشائی بننے کے بجائے
فوری نرم مداخلت کرنی چاہئے اور کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالنا چاہئے کہ جس سے حکومت کو ہزیمت نہ اُٹھانا پڑے اور تحریک انصاف قیادت کو بھی فیس سیونگ مل جائے ، یہ اداروں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ،اداروں نے پہلے بھی نہ صرف در پیش بحرانوں سے نکالا ،بلکہ ملک وقوم کو متحدومستحکم بھی رکھاہے