تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میںجس دن سے افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج تک بس 53

انتخابات پر بات ہونی چاہئے !

انتخابات پر بات ہونی چاہئے !

تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میںجس دن سے افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج تک بس ایسی ہی خبریں زر گردش ہیں کہ کون آرہا ہے، کون جا رہا ہے، کون عیادت کرنے آرہا ہے، کون عیادت کر کے جا رہا ہے،اس آنے جانے میں کس کی ملاقات ہوئی اورکس سے کیا بات ہوئی ہے، اس ملاقاتوں کی سر گرمیوں میںسب اپنے اپنے مشورے بھی دئیے ر ہے ہیںاور مشورے بھی انہیں دے رہے ہیں

کہ جن سے ہر وقت رہنمائی اور مدد کے خواہشمندرہتے ہیں،لیکن کیا ملاقاتوں کے کوئی دورس نتائج نکل رہے ہیں اور کیا مشاورت کار گر ہورہی ہے ، کیا نتخابات پر بات ہورہی ہے ،اس کے اثرات کہیں دور تک دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ۔
ملک بھر میں ایک طرف اتحادی حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے تو دوسری جانب لانگ مارچ میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے پر ایک ہنگامہ برپا ہے ،اس کی بازگشت جب سپریم کورٹ تک جا پہنچی تو وہاں سے احکامات صادر ہونے پرایف آئی آر درج کی گئی،لیکن یہ ایف آئی آرپولیس کی مدعیت میں درج ہوئی ہے

،اس ایف آئی آر کو پی ٹی آئی قیادت نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے،اس میںنامزد لوگوں کے نام ہی شامل نہیں ہیں، پی ٹی آئی نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ پولیس مدعیت میں درج کرنے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کردیا ہے۔
اتحادی حکومت معاملات سلجھانے کی بجائے بگاڑنے میں لگے ہیں، اس سے فائدے کے بجائے سیاسی نقصان کے اندشے بڑھتے جارہے ہیں

،اتحادی قیادت ایک طرف مزاکرات کی باتیں کرتے ہیں ،افہام و تفہیم کا درس دیتے ہیں تو دوسری جانب پانچ دن گزرنے کے بعد بھی ایف آئی آر در ج نہیں کی گئی تھی ،وفاقی حکومت صوبائی حکومت پر ملبہ ڈالتی رہی اور صوبائی حکومت وفاق کی مداخلت کارونا روتی رہی ہے ،اس وقت حکومت کس کے پاس ہے اور کون معاملات بگاڑ رہا ہے ،سمجھ سے بالاتر ہے ،لیکن یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک قوت ایسی ہے

کہ جو سب سے بالاتر ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ایف آئی آر ممکن ہے نہ کوئی سنوائی ہو سکتی ہے ،اس کا واضح ثبوت ہے کہ معزز عدلیہ کی مداخلت کے باوجود حسب منشاء ہی ایف آئی آر درج ہوئی ہے ، اس ایف آئی آر پرپی ٹی آئی نے عدالت جانے کا فیصلہ تو کرلیا ،لیکن انہیں بھی دیر یا سویر یو ٹرن ہی لینا پڑے گا۔
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف چیف جسٹس سپریم کورٹ سے تحریکِ انصاف قیادت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لئے فل کورٹ پر مبنی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں،وزیراعظم کی طرف سے مطالبہ مناسب اور حالات کے عین مطابق ہے،پی ٹی آئی قیادت کو آیف آئی آر پر بضد ہونے کے بجائے جوڈیشل کمیشن کی طرف ہی جانا چاہیے اور اس کے ذریعے ہی ذمہ داروں کا تعین کرواکر یف آئی آر میں نام درج ہونے چاہئے

اور پھر قانون اپنا راستہ بنائے، اس سلسلہ میں سیاسی بیانات کے بجائے قانونی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے آگے بڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، سیاسی محاذ آرائی میں پہلے ہی خاصی تاخیر ہو چکی، مزید تاخیر نہیں ہو نی چاہئے، اس حد تک اختلافات کو بڑھا وا نہیں دینا چاہئے کہ ایک دوسرے پر بندوقیں تان لی جائیںیا اپنے مخالف آواز کو دبا نے کیلئے گولیاں مار ی جائیں، اس رویے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
حزب اقتدار اور حزب اقتدار کو اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،ہر گزرنے والے دن کے ساتھ حالات بہتر ہونے کے بجائے خرابی کی طرف جا رہے ہیں، ملک کی معاشی صورت حال دگر گوں ہے ،باہر سے سرمایہ کاری آ رہی ہے نہ اندورن ملک سرمایہ کاری ہورہی ہے ،اتحادی حکومت کی بگڑتی صورت حال کنٹرول کرنے میں ناکامی پر حالات مزید
خراب ہور ہے ہیں،اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مقتدر حلقے خاموش تماشائی بننے کے بجائے قومی و عوامی مفاد میںفیصلے کریں ،کیونکہ ملک زیادہ دیر تک غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،اس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کومل بیٹھ کر عام انتخابات پر متفق ہونا ہی پڑے گا، ایک نگران حکومت کے قیام کے ساتھ نئے انتخابات کے اعلان سے ہی ملک کی اندرونی صورت حال میں بہتر ی لائی جا سکتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں